ایران کے ساتھ جامع ڈیل کی کوئی ضمانت نہیں، ایشٹن
9 مارچ 2014کیتھرین ایشٹن نے اپنے اولین سرکاری دورہ ایران کے موقع پر وزیر خارجہ محمد جواد ظریف سے ملاقات کے بعد کہا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین جاری جوہری مذاکرات کے تحت طے پانے والی عبوری ڈیل انتہائی اہم ہے لیکن یہ اتنی اہم نہیں جتنا کہ ایک جامع یا طویل المدتی ڈیل ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک جامع معاہدہ طے پانا نہ صرف مشکل اور چیلنجنگ ہے بلکہ اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ عالمی طاقتیں اس میں کامیاب ہو جائیں گی۔
کیتھرین ایشٹن 2009ء میں یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ ایران کا دورہ کر رہی ہیں۔ اس دوران ان کے ہمراہ یورپی یونین کا ایک وفد بھی ہے، جو ایرانی قیادت کے ساتھ ایران کی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے بات چیت کر رہا ہے بلکہ ساتھ ہی ایسے معاملات بھی زیر بحث ہیں کہ یورپی یونین اور ایران باہمی تعاون کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔
اتوار کے دن جواد ظریف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے خاتون سفارتکار ایشٹن کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین کسی جامع معاہدے کے لیے اطراف کو مل کر انتہائی جانفشانی سے کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کسی کامیابی تک پہنچنے کے لیے ایرانی عوام کی حمایت کے علاوہ ایرانی قیادت اور عالمی طاقتوں کو محنت کرنا ہو گی۔
اس موقع پر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ممکنہ جوہری ڈیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہم چار یا پانچ ماہ یا اس سے بھی پہلے کسی حتمی ڈیل پر اتفاق رائے کر سکتے ہیں۔‘‘ تہران سے موصول ہونے والی اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ جواد ظریف اور ایشٹن کے مابین ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔
ایشٹن اپنے اس دورے کے دوران ایرانی صدر حسن روحانی اور اسپیکر علی لاریجانی سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس دوران کیتھرین ایشٹن ایرانی قیادت کے ساتھ شام کے بحران کے حل کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں پر بھی بات چیت کریں گی۔
گزشتہ برس نومبر میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ایک عبوری ڈیل طے پائی تھی، جس کے تحت ایرانی حکومت نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود بنانے پر رضا مندی ظاہر کی تھی اور جواباً ایران پر عائد کچھ مالیاتی پابندیوں میں نرمی تجویز کی گئی تھی۔ اس ابتدائی ڈیل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان چھ ماہ کے دوران ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ جرمنی ایک فریم ورک پر کام کرتے ہوئے ایک طویل المدتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش کریں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ اسرائیل اور مغربی ممالک کو خطرہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی کوشش میں ہے لیکن تہران حکومت ایسے خدشات کو رد کرتے ہوئی کہتی ہے کہ اس کا یہ پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔