ایران کے پہلے جوہری بجلی گھر نے کام شروع کر دیا
22 اگست 2010روس کے تعاون سے بنائے گئے بوشہر کے پلانٹ میں ہفتے کو پہلی مرتبہ فیول راڈز استعمال کئے گئے جس کی تصاویر سرکاری ٹیلی ویژن پر ملک بھر میں دکھائی گئیں۔ بعد میں علی اکبر صالحی نے سیرگئی کری اینکو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بوشہر کا ایٹمی پلانٹ جس نے باقاعدہ طور پر کام شروع کر دیا ہے ایران کے پر امن ایٹمی پروگرام کی سب سے بڑی علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔
جنوبی ایران میں بوشہر کے اس ری ایکٹر کو فعال کرنے کی تقریب کے موقع پر پورے ملک میں ایک جشن جیسا سماء تھا۔ بوشہر کے ری ایکٹر کے لئے ایندھن روس مہیا کرے گا جو ساتھ ہی وہاں سے ایٹمی فاضل مادوں کو نکالنے اور ان کی روس منتقلی کا بھی ذمہ دار ہو گا۔
ایران کو اقوام متحدہ کی طرف سے چار مختلف مراحل میں طے کی گئی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔ ان کا سبب تہران کا یورینیم کی افزودگی کا متنازعہ پروگرام بنا تھا۔ مغربی دنیا کا الزام ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنا چاہتا ہے مگر ایران نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام جوہری توانائی کے پرامن حصول کے لیے ہے۔
بو شہر میں ہفتے کو جس ایٹمی بجلی گھر کا افتتاح کیا گیا اس کی تعمیر میں مجموعی طور پر پینتیس برس کا عرصہ لگا اور یہ منصوبہ مجموعی طور پر متعدد مرتبہ تاخیر کا شکار بھی رہا۔
مغربی نامہ نگاروں کے مطابق ایرانی حکام نے ری ایکٹر کے باقاعدہ طور پر فعال ہونے کی تقریب کو ایک ایسی فتح کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے جس میں اسلامی جمہوریہ ایران اپنے مخالفین پر برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کی سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں ایران سے متعلقہ امور کے ایک ماہر پروفیسر علی انصاری کے مطابق ایران نے جان بوجھ کر بوشہر میں ایٹمی بجلی گھر کو استعمال میں لائے جانے کے عمل کی اہمیت کے حوالے سے دانستہ مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔
بوشہر کے اس ری ایکٹر کے ذریعے بجلی کی پیداوار کا عمل تقریبا ایک مہینے میں شروع ہو جائے گا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بو شہر میں استعمال ہونے والا یورینیم ایندھن کے طور پر اپنی افزودگی کی سطح میں اس یورینیم سے کم نوعیت کا ہو گا جو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے لیے درکار ہے ۔
رپورٹ :عصمت جبیں
ادارت :شادی خان سیف