1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایردوآن ترکی کے پہلے ایگزیکٹیو صدر بن گئے

25 جون 2018

ترک الیکشن کمیشن نے ایردوآن کی فتح کی تصدیق کر دی ہے۔ ان انتخابات کے بعد ترکی میں صدارتی نظام کا نفاذ مکمل ہونے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اب ایردوآن ایک ہی وقت میں ملکی صدر اور اپنی جماعت اور حکومت کے سربراہ بن گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/30D5C
Wahlen Türkei - Erdogan erklärt sich zum Sieger
تصویر: picture-alliance/AA/K. Ozer

ایردوآن کی کامیابی کی سرکاری طور پر تصدیق کر دی گئی ہے۔ ترک انتخابی کمیشن کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن پہلے ہی مرحلے میں صدارتی انتخابات جیت گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ آج پیر کی صبح تک 98 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی تھی اور ان میں سے اکثریت ایردوآن اور ان کی پارٹی کے حق میں پڑے۔

انتخابی کمیشن کے اعلان سے چند گھنٹے قبل ہی استنبول میں ایردوآن نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا تھا، ’’ہماری عوام نے ریاست اور حکومت کی سربراہی میرے سپرد کی ہے‘‘۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ نتائج حتمی نہیں ہیں۔

ترک خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( اے کے پی)  کو 52.5  فیصد ووٹ ملے ہیں۔  ان کے قریب ترین دائیں بازو کی قوم پرست جماعت CHP سے تعلق رکھنے والے محرم انجے کو تقریباً31 فیصد ووٹ ملے۔

Wahlen Türkei - Erdogan erklärt sich zum Sieger - Erdogans Anhänger feiern
تصویر: picture alliance/AA/M. Dermencioglu

حزب اختلاف کے انتخابی مبصرین کے ’شفاف انتخابات‘ نامی پلیٹ فارم نے ان نتائج کی تصدیق کی ہے۔ کرد نواز جماعت ایچ ڈی پی کے صلاح الدین دیمترس کو8.3 فیصد ووٹ ملے ہیں، دیمترس 2016ء سے قید میں ہیں۔

پارلیمانی انتخابات میں ایردوآن کی جماعت اے کے پی کو ڈالے گئے کُل ووٹوں کا تینتالیس فیصد ملے ہیں جبکہ اس کی اتحادی جماعت ’ایم ایچ پی‘ کو ملنے والے ووٹوں کی شرح تقریباً گیارہ فیصد ہے۔ اس طرح حکومتی اتحاد چھ سو رکنی پارلیمان میں 340 نشستیں حاصل کر لے گا۔ دوسری جانب حزب اختلاف کے اتحاد کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب بائیس فیصد بنتا ہے۔

متعدد رپورٹوں میں اتوار 24 جون کو ہونے والے ترک صدارتی و پارلیمانی انتخابات میں بے قاعدگیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے، خاص طور پر ترکی کے جنوب مشرقی حصے میں۔ حزب اختلاف نے صوبہ شانلیعرفا میں دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔  کچھ حلقوں میں پر تشدد واقعات بھی رنما ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ کئی انتخابی مبصرین کو حراست میں بھی لے لیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کرد نواز جماعت ’ ایچ ڈی پی‘ کی دعوت پر ترکی جانے والے تین جرمن مبصر بھی گرفتار شدگان میں شامل ہیں۔