ایشیائی اور یورپی رہنماؤں کی سمٹ، پوٹن اور پورو شینکو کی ملاقات
17 اکتوبر 2014اس ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل سمیت دیگر یورپی رہنما بھی موجود تھے۔ یوکرائن میں جاری بحران کے تناظر میں انتہائی اہم سمجھی جانے والی اس ملاقات کو پوٹن نے مثبت قرار دیا ہے۔
تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روسی صدر کی جانب سے سامنے آنے والے اس بیان کے باوجود یوکرائن کے تنازعے کو حل کرنے کی سمت میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نظر نہیں آئی۔ اس ملاقات سے قبل فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے ايک قریبی ساتھی کا کہنا تھا کہ يہ ملاقات روسی صدر کو يہ مشترکہ پيغام دينے کا موقع ثابت ہو گی کہ وہ حقيقی معنوں ميں امن مذاکرات شروع کريں۔
مذاکرات سے قبل پوٹن اور پورو شینکو نے پر جوش انداز میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانویل باروسو سے مصافحہ کیا۔ اس ملاقات کے بعد ولادیمیر پوٹن نے مسکراہٹ کے درمیان رپورٹرز کو بتایا، ’’یہ بہت اچھی اور مثبت ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے میزبان اطالوی وزیر اعظم ماتیو رینزی نے بعد ازاں میڈیا کو بتایا کہ کسی حد تک پیشرفت ہوئی ہے مگر ’بہت زیادہ اختلافات‘ قائم ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق روسی صدر کی جانب سے گزشتہ روز دیے جانے والے ایک بیان نے یورپی رہنماؤں کی جانب سے یوکرائن کے بحران کے حل کی کوششوں میں مشکلات بڑھا دی ہیں۔ روسی صدر نے عنديہ ديا تھا کہ آئندہ موسم سرما ميں مغربی يورپی ممالک کو روسی گيس کی سپلائی ميں 'ٹرانزٹ سے متعلق مسائل‘ کے سبب خلل پڑ سکتا ہے۔ ولاديمير پوٹن نے اس موقع پر يورپی رہنماوں کو يہ بھی ياد دلايا کہ يورپ کو اس کی گيس کی ضروريات کا ايک تہائی حصہ روس ہی سپلائی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مغربی ممالک کے طرز عمل سے ماسکو حکومت بلیک میل نہیں ہو گی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روسی صدر کے ترجمان دیمیتری پیسکوف نے کہا ہے کہ ملاقات میں شریک بعض رہنما حقائق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ روس کی سرکاری نیوز ایجنسی RIA کے مطابق پیسکوف کا کہنا تھا، ’’بد قسمتی سے ناشتے پر ہونے والی ملاقات کے بعض شرکاء جنوب مشرقی یوکرائن کے حوالے سے حقائق کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔‘‘
میرکل اور پوٹن کی ملاقات
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور روسی صدر کے درمیان جمعرات کو رات گئے دوطرفہ ملاقات شروع ہوئی جو آج جمعہ 17 اکتوبر کو علی الصبح تک جاری رہی۔ اس موقع پر ميرکل نے کہا کہ روس کی اولين ذمہ داری يہی ہے کہ مشرقی يوکرائن ميں باغيوں کے ساتھ گزشتہ ماہ طے ہونے والے امن منصوبے اور جنگ بندی معاہدے پر حقيقی معنوں ميں عملدرآمد ہو۔
یوکرائنی تنازعے کے حوالے سے روسی کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے گزشتہ روز میرکل کا کہنا تھا، ’’ بنیادی طور پر یہ روس کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ بات واضح کرے کہ مِنسک میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے۔ بد قسمتی سے اس معاملے میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے، مگر اس مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات بہرحال اہم ہوں گے۔‘‘
کریملن کے مطابق اس ملاقات کے دوران یوکرائن کے تنازعے کی بنیاد بننے والے عوامل پر اہم اختلافات سامنے آئے۔ روسی خبر رساں اداروں نے پوٹن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کے حوالے سے بتایا، ’’یوکرائن کے داخلی تنازعے کی بنیاد بننے والے عوامل اور اس وقت جو کچھ وہاں ہو رہا ہے، اس کی وجوہات کے حوالے سے ابھی بھی سنجیدہ نوعیت کے اختلافات موجود ہیں۔‘‘
اطالوی شہر میلان میں ہونے والے ایشیائی اور یورپی ممالک کے اس سربراہی اجلاس ASEM ميں عالمی سطح پر سب سے وسيع تجارتی تعلقات کے حامل پچاس سے زائد ممالک کے رہنما شرکت کر رہے ہيں۔ جمعرات 16 اکتوبر کو شروع ہونے والی اس سمٹ کا آج دوسرا اور آخری روز ہے۔