ایشیائی مچھر افریقہ کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن چکے ہیں؟
6 نومبر 2022ایک تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق افریقہ میں 'تباہی مچانے والے‘ ان مچھروں کی یہ نسل عام طور پر بھارت اور خلیج فارس کے آس پاس پائی جاتی ہے۔ ان مچھروں کو سائنسی زبان میں 'اینوفلیز سٹیفنسی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مچھروں کی یہ قسم دس برس پہلے جبوتی میں ملی تھی۔ اس کے بعد سے یہ مچھر نائجیریا سے لے کر یمن تک اپنے پھیلنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کی روک تھام کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔
مچھر کا جین تبدیل کر دیں، ملیریا ختم ہو جائے گا
ملیریا پر تحقیق کرنے والے سائنسدان فٹسم ٹاڈیسی نے 'امریکن سوسائٹی آف ٹراپیکل میڈیسن‘ کے ایک اجلاس میں اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف جبوتی بلکہ رواں سال ایتھوپیا میں ملیریا کی وبا کے پیچھے بھی یہی 'ایشیائی مچھر‘ تھے۔
ایشیائی مچھر زیادہ خطرناک کیوں؟
رواں برس جنوری میں ایتھوپیا کے شہر اور نقل و حمل کے ایک بڑے مرکز 'ڈائر داوا‘ میں صحت کے حکام نے ملیریا میں تیزی سے اضافے کی اطلاع دی تھی۔ اس کے بعد دارالحکومت ادیس ابابا میں قائم 'آرماؤر ہینسن ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ کے سائنسدانوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ شروع کر دیا۔ انہوں نے ملیریا کے 200 سے زائد کیسز کا سراغ لگایا، مچھروں کی افزائش کی قریبی جگہوں کا معائنہ کیا اور ملیریا کا باعث بننے والے حملہ آور مچھروں کا تجزیہ بھی کیا۔
اس تحقیق سے پتا چلا کہ ملیریا کی یہ بیماری افریقہ کے مقامی مچھروں کی وجہ سے نہیں پھیل رہی بلکہ اس کے پیچھے 'غیر ملکی مچھر‘ کار فرما ہیں۔
مچھر، ہوں تب بھی مصیبت نہ ہوں تب بھی
امپیریل کالج لندن میں متعدی بیماریوں کی حرکیات کے پروفیسر تھامس چرچر نے ان نتائج کو 'خوفناک‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افریقی نسل کے مچھر عام طور پر کم آبادی والے دیہی علاقوں میں ملیریا پھیلاتے ہیں جبکہ یہ 'ایشیائی مچھر‘ بڑے شہروں کی آبادی کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ غیر مقامی مچھر چھوٹے تالابوں میں بھی تیزی سے افزائش پاتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ افریقہ کا موسم اور حالات مچھروں کی اس قسم کے لیے سازگار ہیں اور یہ انہیں مزید خطرناک بنا دیتے ہیں۔ پروفیسر تھامس چرچر کا کہنا ہے، ''اگر ان مچھروں نے افریقہ میں قدم جما لیے تو یہ غیر معمولی طور پر بری پیش رفت ہو سکتی ہے۔‘‘
ان مچھروں سے بچاؤ کیسے ممکن؟
افریقہ میں مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھر دانیوں اور گھروں کے اندر سپرے جیسے اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن یہ سب اقدامات ان نئے حملہ آور مچھروں کے خلاف بے سود ثابت ہوں گے کیوں کہ یہ مچھر لوگوں کو کھلے مقامات پر بھی کاٹتے ہیں۔
لیورپول اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن میں متعدی امراض کی ماہر این ولسن کہتی ہیں کہ افریقی کمیونٹی ان مچھروں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت میں استعمال ہونے والے طریقوں کو اپنانے پر غور کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسی مچھلیوں کو متعارف کرانا، جو مچھروں کے لاروے کھاتی ہیں یا پھر کہیں بھی مستقل طور پر پانی کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔
این ولسن کہتی ہیں کہ ایشیائی مچھروں سے افریقہ میں ملیریا کے خلاف جنگ مزید سست روی کی شکار ہو جائے گی۔ ملیریا کی وجہ سے ہر سال چھ لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ایسی زیادہ تر اموات افریقہ میں ہوتی ہیں۔
ا ا / م م (اے پی)