ایغوروں کی ’نسل کشی‘ کے ذمہ دار چینی صدر، ٹریبیونل
10 دسمبر 2021برطانوی دارالحکومت لندن میں وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنان پر مشتمل ایک غیرسرکاری ٹریبیونل نے چین کے سنکیانگ خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ وہاں ایغوروں اور دیگر اقلیتی نسلی گروہوں کے خلاف تشدد، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی بنیادی ذمہ داری چینی صدر شی جن پنگ پر عائد ہوتی ہے۔
چین کا مؤقف
سنکیانگ میں چینی حکومت کی پالیسیوں اور کریک ڈاؤن کے خلاف پہلے بھی اس طرح کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں لیکن چین ہمیشہ ہی ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا رہا ہے۔ اس مرتبہ بھی لندن میں واقع چینی سفارت خانے نے برطانوی معروف وکیل جیفری نائس کی سربراہی میں بنائے گئے اس ٹریبیونل کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ دراصل چین کے دشمنوں کی طرف سے پھیلایا جانے والا نفرت پر مبنی سیاسی ایجنڈا ہے۔
برطانیہ میں قائم اس ایغور ٹریبینونل کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شمالی مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ قازق اور دیگر اقلیتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں نسل کشی کے زمرے میں آتی ہیں۔ جمعرات کو جاری کیے گئے اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اس سب کے لیے صدر شی جن پنگ کے علاوہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے انتہائی سینئر رہنما ذمہ دار ہیں۔
سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیاں
جرمن شہر میونخ میں قائم ورلڈ ایغور کانگریس (ڈبلیو یو سی) نے سن دو ہزار بیس میں برطانوی وکیل جیفری نائس سے درخواست کی تھی کہ وہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی چھان بین کریں۔ یہ کانگریس نہ صرف سنکیانگ بلکہ دنیا بھر میں موجود ایغور نسلی گروہ کی ایک نمائندہ تنظیم ہے اور اس کمیونٹی کے مفادات اور حقوق کے تحفظ کے لیے فعال ہے۔
کئی دیگر مغربی رہنما بھی سنکیانگ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومتیں بھی ایغوروں کے ساتھ چینی برتاؤ کو نسل کشی کے مترادف قرار دے چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کے متعدد گروہوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حالیہ برسوں میں ایک ملین سے زائد ایغوروں اور دیگر اقلیتی ممبران کو حراست میں لیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان افراد کو سنکیانگ میں بنائے گئے عقوبت خانوں میں انتہائی ابتر صورتحال میں قید رکھا گیا۔
ابتداء میں چین نے کیمپوں کی شکل میں بنائے گئے ان حراستی مراکز کے وجود سے ہی انکار کر دیا تھا تاہم بعد ازاں کہا تھا کہ دراصل یہ جیل خانے نہیں بلکہ ووکینشل سینٹرز ہیں، جن کا مقصد انتہا پسندی پر قابو پانا ہے۔
ع ب ، ع آ (خبررساں ادارے)