ایف آئی اے کی رپورٹ: وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں
6 اپریل 2020وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی چینی اور آٹا بحران سے متعلق رپورٹ کے بعد وفاقی کابینہ میں اکھاڑ پیچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جب کہ پی ٹی آئی کےاہم مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور شہباز گل میں 'لفظی جنگ‘ بھی چھڑ گئی ہے۔ وفاقی وزیر برائے فوڈ سکیورٹی خسرو بختیار سے ان کا قلمدان واپس لے کر سید فخر امام کو دے دیا گیا ہے جبکہ اقتصادی امور کا قلمدان اب خسرو بختیار کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
حماد اظہرکو وزارت صنعت و پیداوار دے دی گئی ہے، اس سے قبل وہ وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور تھے۔ امکان ہے کہ آنے والے ہفتوں میں مزید تبدیلیاں بھی لائی جا سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے اراکین اور اتحادی جماعتوں کے گلے شکووں میں بھی شدت آ سکتی ہے۔
یہ سیاسی ہلچل اس رپورٹ کے آنے کے بعد پیدا ہوئی، جس کی وجہ سے ملک کے کئی حلقوں میں سول ملٹری تعلقات اور سیاسی عدم استحکام سمیت کئی اہم موضوعات پر بحث پہلے ہی چھڑ چکی تھی۔ اس ہلچل سے اب ملک میں یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک بار پھر سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان بہت بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں اور اس مشکل کی وجہ سے ملک سیاسی عدم استحکام کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ابھی صرف کابینہ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن رپورٹ میں نام آنے والے افراد کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور پی ایم ایل ق کے رہنما مونس الہی نے حکومت کی طرف سے چینی پر دی گئی سبسڈی سے فائدہ اٹھایا۔ رپورٹ میں ن لیگ اور دیگر پارٹیوں سے وابستہ افراد کے بھی نام ہیں لیکن کرپشن کے خلاف لڑنے والے عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے نام منظر عام پر آنے سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے لئے کئی مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں۔
نون لیگ کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی اس رپورٹ میں عمران خان کے قریبی لوگوں کے نام منظر عام پر آنے سے کرپشن کے خلاف لڑنے والے چیمپئین کے لئے مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو گئے ہیں، ''پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ میں عددی برتری جہانگیر ترین، مونس الہی اور خسرو بختیار جیسے لوگوں کی وجہ سے ہے۔ کئی اراکین قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اراکین جہانگیر ترین کے قریب ہیں۔ خسرو کے ساتھ بھی کچھ ارکان ہیں جب کہ مونس الہی اہم اتحادی ہے۔ اگر عمران خان نے ان افراد کے خلاف ایکشن لیا تو اس کی اکثریت ختم ہو جائے گی اور ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔‘‘
پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اب اگر عمران خان نے ان افراد کے خلاف ایکشن نہ لیا تو پھر لوگ اسے چور اور لٹیروں کا ساتھی قرار دیں گے، ''تو خان صاحب بڑی مشکل میں پھنس گئے ہیں۔ ایکشن لیتے ہیں تو اکثریت جاتی اور نہیں لیتے تو پی ٹی آئی کا کرپشن مخالف بیانیہ زمین بوس ہو جائے گا۔‘‘
سابق وفاقی وزیر اور سینیڑ حاصل بزنجو اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ملک سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے، ''میرا خیال ہے کہ فوری طور پر تو اس رپورٹ سے عمران خان کی حکومت کو خطرہ نہیں ہو گا گو کہ مشکلات ضرور پیدا ہوں گی کیونکہ ملک چلانے والے کورونا کے بحران کے پیش نظر کوئی عدم استحکام نہیں چاہیں گے لیکن کورونا کے بحران کے بعد سیاسی بحران آ سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خان مدت پوری نہ کر سکے۔‘‘
پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ باتیں بھی چل رہی ہیں کہ سول و ملٹری تعلقات میں اتنی گرم جوشی نہیں رہی جتنی کہ حکومت کی تشکیل کے وقت موجود تھی۔ حاصل بزنجوکا بھی یہی خیال ہے کہ جی ایچ کیو اور بنی گالہ میں دوستی اب اتنی پکی نہیں جتنی پہلے تھی، ''اس رپورٹ کا آ جانا اتنا معمولی نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ واجد ضیاء کس کا آدمی تھا اور ہے۔ پانامہ انکوائری میں اسے دس والیومز کس نے دلوائے تھے اور موجودہ انکوائری میں بھی واجد ضیاء نے جو پھرتی دکھائی ہے، وہ اس کی نہیں بلکہ کسی اور کی ہے۔ تو لگتا ہے لانے والے خوش نہیں ہیں۔‘‘
معروف سیاسی تجزیہ نگار ضیا الدین کے خیال میں طاقت ور حلقوں کو شاید یہ محسوس ہو رہا تھا کہ عمران کے قریبی ساتھی اسے محمد خان جونیجو بنانا چاہ رہے تھے، ''شاید اسی وجہ سے ان ساتھیوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور رپورٹ کو منظر عام پر اس طرح لایا گیا ہے کہ عمران کو بھی بظاہر بہت زیادہ ناراض نہ کیا جائے بلکہ اسے ایسے افراد کے حلقے سے نکالنے کی کوشش کی ہے، جو اس پر اثر انداز ہو رہے تھے اور ممکنہ طور پر اس سے محمد خان جونیجو جیسا کوئی کام کروانا چاہ رہے تھے۔‘‘
تاہم حکومت کے قریبی حلقوں کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کے آنے سے عمران خان کی اخلاقی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ معروف تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شیعب کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں دوریاں پیدا ہو رہی ہیں، ''ابھی تو فوج نے انہیں کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بنا کر دیا ہے اور کورونا کے مسئلے پر بھی فوج حکومت کے ساتھ ہے۔ میرے خیال میں دباو عمران خان کے سیاسی دوستوں کی طرف سے تھا، جو نہیں چاہ رہے تھے کہ یہ رپورٹ منظر عام پر آئے لیکن عمران خان نے ان کے دباو کو مسترد کر کے اخلاقی برتری حاصل کی ہے، جس کا اس کو سیاسی فائدہ ہوگا۔‘‘