ایلان سے اومران تک مہاجرت کا سفر، مصائب ختم نہیں ہوئے
سن دو ہزار پندرہ اور سن دو ہزار سولہ میں یورپ میں بڑے پیمانے پر تارکین وطن کی آمد کی تصاویر دنیا بھر میں گردش کرتی رہیں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہوئیں۔ تاہم مہاجرین کے مصائب کا مکمل احاطہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔
یونانی جزائر میں پڑاؤ
گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد جنگوں اور تنازعات کے باعث اپنے ممالک کو چھوڑ کر ترکی کے ذریعے یونان پہنچے۔ یونانی جزائر لیبسوس، شیوس اور ساموس میں اب بھی دس ہزار کے قریب تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں اس سال جنوری سے مئی تک چھ ہزار نئے پناہ گزین بھی پہنچے ہیں۔
یورپ کی جانب پیدل سفر
سن دو ہزار پندرہ اور سولہ میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن نے ترکی اور یونان کے بعد ’بلقان روٹ‘ پر پیدل سفر کرتے ہوئے مغربی یورپ پہنچنے کی کوشش کی۔ مہاجرین کا یہ بہاؤ اُس وقت تھما، جب اس راستے کو باقاعدہ اور مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
ایلان کُردی
اس تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ستمبر دو ہزار پندرہ میں تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی لاش ترکی کے ایک ساحل پر ملی۔ یہ تصویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر مہاجرین کے بحران کی علامت بن گئی، جس کے بعد یورپ کے لیے اس بحران کو نظر انداز کرنا ممکن نہ تھا۔
بلقان روٹ کی بندش
ہزاروں افراد نے یہ جاننے کے بعد کہ اب بلقان روٹ زیادہ عرصے تک کھلا نہیں رہے گا، کروشیا میں پہلے سے بھری ہوئی بسوں اور ٹرینوں میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اکتوبر سن دو ہزار پندرہ میں ہنگری نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔
ہنگری کی خاتون صحافی
ستمبر 2015ء میں ہنگری کی صحافی پیٹر لازسلو اس وقت عالمی خبروں میں آئی تھیں، جب میڈیا پر ایک فوٹیج جاری ہوئی تھی، جس میں وہ سرحد عبور کرنے والے ایک مہاجر کو ٹانگ اڑا کر گراتی ہیں، جب کہ یہ مہاجر اس وقت اپنے بازوؤں میں ایک بچہ بھی اٹھائے ہوئے تھا۔
مہاجرین پر تشدد
مارچ سن دو ہزار سولہ میں بلقان روٹ کی بندش کے بعد بلقان کی ریاستوں کے سرحدی راستوں پر افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران مہاجرین پر ظالمانہ تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
خون اور دھول میں اٹا بچہ
پانچ سالہ شامی بچے اومران کی یہ تصویر جب سن دو ہزار سولہ میں منظر عام پر آئی تو دنیا بھر میں لوگ صدمے کی کیفیت میں آ گئے۔ شامی صدر بشار الاسد کے حامیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اس تصویر کو پروپیگنڈا مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
نیا لیکن انجان گھر
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر کھینچی گئی یہ تصویر ایک شامی مہاجر کی ہے، جو برستی بارش میں اپنی بیٹی کو اٹھا کر لے جا رہا تھا، اس امید پر کہ اُس کے خاندان کو یورپ میں اچھا مستقبل ملے گا۔
مدد کی امید
جرمنی تارکین وطن کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ جرمن چانسلر میرکل پناہ گزینوں کے لیے آئیکون کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اب بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے بعد جرمن حکومت نے مہاجرت کے حوالے سے قوانین کو سخت بنا دیا ہے۔
بحیرہ روم میں اموات
جنگوں، تنازعات اور غربت سے راہ فرار اختیار کر کے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن خطرات سے پُر سمندری راستے بھی اختیار کرتے ہیں۔ رواں برس اب تک اٹھارہ سو، جب کہ سن دو ہزار سولہ میں پانچ ہزار مہاجرین غیر محفوظ کشتیوں پر بحیرہ روم کے سفر کے دوران اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔