این آراو پرعملدرآمد: عدالتی سماعت ملتوی
13 اکتوبر 2010اس کے علاوہ این آر او نظرثانی کیس میں حکومت کو ایک بار پھر مہلت دیتے ہوئےاس مقدمے کی سماعت نومبر کے پہلے ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔بدھ کے روز این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے نیب کے پرُسیکیوٹر کی طرف سے داخل کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور نیب ریفرنسز کے تحت بری کئے گئے تمام ملزموں کی فہرست طلب کر لی۔
اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ نیب کے نئے چیئرمین کی تقرری عدالتی فیصلے کی ایک اور خلاف ورزی ہے کیونکہ اس میں چیف جسٹس سے مشاورت ضروری تھی۔
عدالت نے اس حوالے سے اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کر لی ہے۔ ادھر بدھ ہی کے روز این آر او نظر ثانی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سابق اٹارنی جنرل اور ایک روز قبل وزیراعظم گیلانی کے مشیر کی حیثیت سے مستعفی ہونے والے لطیف کھوسہ نے حکومت کی طرف سے اپنا وکالت نامہ عدالت میں داخل کرایا۔
سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ نے کچھ بحث مباحثے کے بعد لطیف کھوسہ کو حکومت کی نمائندگی کرنے کی اجازت دے دی۔ حکومتی وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں اس مقدمے کی تیاری کے لیے مزید وقت دیا جائے۔ اس پر عدالت نے ان کی اس درخواست کو مانتے ہوئے مقدمے کی سماعت اگلے ماہ کے پہلے ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لطیف خان کھوسہ نے کہا کہ وہ فی الحال این آر او نظرثانی کیس میں حکومت کی نمائندگی کریں گے اور این آر او کے دفاع کے حوالے سے وہ ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ این آر او کے مثبت پہلو بھی سامنے آنے چاہیں ۔ انہوں نے کہا:
''آئین و قانون جس چیز کا متقاضی ہے میں صرف وہی کروں گا ۔ میں سمجھتا ہوں اس سے بہت اچھی چیزیں سامنے آئی ہیں۔ آج اگر آپ جمہوریت دیکھ رہے ہیں اور آپ اس ملک میں اداروں کو فعال طریقے سے کام کرتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور اگر آج آپ آزادی سے سانس لے رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بہت سی ایسی چیزیں بھی آئی ہیں جن کو سامنے لانا ضروری ہے۔‘‘
دوسری جانب این آر او نظر ثانی کیس میں حکومتی فریق ڈاکٹر مبشر حسن کے وکیل سلمان راجہ کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت عظمیٰ کی جانب سے حکومت کو مزید مہلت دئے جانے پر کوئی اعتراض نہیں۔
سلمان راجہ کا کہنا تھا: ''معاملہ دس دن پہلے یا بعد میں ہونے سے کیا فرق پڑ جائے گا اگر سپریم کورٹ آج کوئی غیر لچکدار رویہ ظاہر کرتی تو حکومت کا گلہ ہوتا کہ ہمیں موقع نہیں دیا گیا، وکیل تبدیل کرنا ہمارا حق تھا وغیرہ وغیرہ۔ اس معاملے کو تکنیکی بنیادوں پر ختم نہیں ہونا چاہئے۔ یہ معاملہ پوری شفافیت کے ساتھ قوم کے ساتھ قانون کا ہر زاویہ سامنے رکھ کر طے ہونا چاہئے۔‘‘
قبل ازیں بدھ کے روز عدالت عظمیٰ میں این آر او پر عملدرآمد سے متعلق مقدمے کی سماعت کے موقع پر سترہ رکنی بینچ میں شامل جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے بیٹوں پر حکومتی اداروں سے وکالت کے نام پر لاکھوں روپے لینے کے الزام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ اس بات کا ثبوت پیش کریں کہ ان کے بیٹوں نے کس سے اور کہاں سے رقم وصول کی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے حکومت کو این آر او نظر ثانی کیس پر مہلت دئے جانے کے بعد فی الحال عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان جاری کشیدگی میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔
رپورٹ : شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں