این آر او کی حیثیت ،سپریم کورٹ کا بڑا بینچ فیصلہ کرے گا
12 اگست 2009اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بینچ نے بدھ کے روز ایف آئی اے کے ایک افسر افضل جٹ کی اس درخواست کی بھی سماعت کی، جس میں درخواست گزار نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس پر قائم بدعنوانی کے مقدمات این آر او کے تحت ختم کئے جائیں۔ اس پر فاضل جج شاکر اللہ جان نے کہا کہ این آر او کا معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوایا جا چکا ہے اور اب اس آرڈیننس کا فیصلہ پارلیمنٹ ہی کرے گی۔ اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل پر مقدمات سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے اور این آر او کی شق 7 اسی طرح کے مقدمات کے خاتمے سے متعلق ہے اس پر عدالت نے قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ختم کئے گئے مقدمات کی فہرست طلب کرتے ہوئے اس مقدمے کی سماعت کےلئے بڑا بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی ہے۔
خیال رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے اکتوبر 2007ء میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک سمجھوتے کے بعد قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور رحمان ملک سمیت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کئی اہم رہنماؤں کے خلاف درج مختلف نوعیت کے سینکڑوں مقدمات ختم کر دیئے گئے تھے جبکہ پیپلز پارٹی ہی کے بانی رہنما ڈاکٹر مبشر حسن، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سابق بیورو کریٹ روئیداد خان نے این آر او کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز بھی ماضی میں این آر او کی شدید مخالف رہی ہے تاہم اب اس کے رہنما اس حوالے سے مصلحت آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے سیاسی مضمرات پر تجزیہ نگار ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے کچھ یوں تبصرہ کیا: ’’یہ بہت اہم مقدمہ ہے اور میرے خیال میں اس مقدمے کے فیصلے سے پاکستان کا سیاسی نقشہ کافی حد تک متاثر ہو گا کیونکہ کچھ لوگ جو اس وقت اقتدار میں ہیں، انہیں دوبارہ احتساب کے عمل سے گزرنا پڑے گا اور جو مقدمات ان کے حق میں ختم ہو گئے تھے ان مقدمات کی دوبارہ عدالتوں میں سماعت ہوگی اور انہیں احتساب کا معاملہ نمٹانا ہوگا ۔‘‘
سیاسی حلقوں کے خیال میں بڑے بینچ کی تشکیل کے بعد این آر او کے حوالے سے ملک بھر میں اس موضوع پر بحث مباحثے کو ایک نئی جہت مل سکتی ہے کیونکہ اس آرڈیننس کے اجراء کے وقت طویل عرصے سے جعلی مقدمات یا معمولی نوعیت کے جرائم کی پاداش میں نظر بند ہزاروں افراد کے حوالے سے بھی بالخصوص سماجی اور قانونی حلقوں میں خاصی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
رپورٹ : امتیاز گل، اسلام آباد
ادارت : عاطف توقیر