1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایودھیا تنازعے پر عدالتی فیصلہ ہماری جیت ہے، بی جے پی

1 اکتوبر 2010

بھارتیہ جنتا پارٹی نے بابری مسجد کے تنازعے پر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو اپنی جیت قرار دیا ہے جبکہ بھارتی مسلمان رہنماؤں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/PRdr
عدالتی فیصلے سے قبل امن مارچتصویر: AP

بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے مسئلے کو قومی سطح پرعام کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے الہ آباد کورٹ کے فیصلے کو ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ بی جے پی کے رہنما سابق وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی نے خبر رساں ادارے AFP کو بتایا، ’اس مقدمے کا نتیجہ، ایک عظیم الشان مندر کی تعمیر کے سلسلے میں پہلا قدم ہے۔‘

الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بینچ نے اس تاریخی مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے، اس مسجد کو تین حصوں میں تقسیم کیا، جس میں سے دو حصے ہندوؤں جبکہ ایک مسلمانوں کے نام کیا ہے تاہم کئی مسلمان رہنماؤں نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

Indien Urteil Ayodhya
عدالتی فیصلے سے قبل ہی ایودھیا میں سکیورٹی سخت ترین کر دی گئی تھیتصویر: DW/Waheed

نئی دہلی جامعہ مسجد کے مرکزی امام سید احمد بخاری نےعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کوجانبدارقرار دیا، ’یہ فیصلہ اندھے اعتقاد کے نتیجے میں کیا گیا ہے نہ کہ ان شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر جو ججوں کو فراہم کئے گئے تھے۔‘

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے سید احمد بخاری نے کہا، ’ہم اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔۔۔ ہم اسی مقام پر دوبارہ بابری مسجد کی تعمیر کے دعویٰ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

مسلمان رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اس مقدمے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان کمیونٹی میں اس عدالتی فیصلے پر غصہ پایا جا رہا ہے، ’خدا نہ کرے کہ یہ فسادات میں تبدیل ہو جائے۔‘

اٹھارہ سال پہلے بابری مسجد کے انہدام کے بعد سے اس مقام پر فوجی دستوں کا سخت پہرا ہے۔ اس عدالتی فیصلے سے قبل بھارت میں بالخصوص حساس مقامات پر سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔ ایودھیا میں بیشتر ہندوؤں نے اس فیصلے کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے چراغ جلائے اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔

Arbeiter wischt den Staub von einem Modell des Rama-Tempels in Ayodhya
رام مندر کا مجوزہ ماڈلتصویر: AP

بھارت کے معروف قانون دان راجیو دھاون نے ایک بھارتی ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایودھیا تنازعہ کے عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کے بقول اگر کوئی کسی جائیداد کو تقسیم کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ وہ آخر کس کی ملکیت ہے، ’یہ ایسا فیصلہ ہے جو عدالت کواس طریقے سے نہیں کرنا چاہئے تھا۔‘ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے پر سوال نہیں اٹھا سکتے اور اس مقام کو تین حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں