ایودھیا: مسجد کی جگہ مندر کا سنگ بنیاد، مودی بھی حصہ لیں گے
26 جولائی 2020نئی دہلی سے اتوار چھبیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اگلے ماہ کے اوائل میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں ہندو قوم پسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے ملکی وزیر اعظم نریندر مودی کی شرکت کا اعلان اس مندر کی تعمیر کے نگران ٹرسٹ کی طرف سے کیا گیا ہے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایودھیا کے شہر میں مغل حکمرانوں کے دور میں 16 ویں صدی میں تعمیرکردہ تاریخی بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں نے 1992ء میں مہندم کر دیا تھا۔
ہندو انتہا پسند تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد رام کی جائے پیدائش ہے اور اسی لیے وہاں اب 'رام مندر‘ تعمیر کیا جائے گا۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد یہ معاملہ برس ہا برس تک ایک قانونی تنازعہ بنا رہا تھا، جس کے اختتام پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے بابری مسجد کی جگہ پر ہندوؤں کا ان کے ایک مندر کی تعمیر کا حق تسلیم کر لیا تھا۔
ایودھیا، پانچ اگست اور جموں کشمیر
ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے نگران ٹرسٹ کے مطابق اس نئے مند رکا سنگ بنیاد پانچ اگست کو رکھا جائے گا۔ کہا گیا ہے کہ یہ تاریخ اس لیے منتخب کی گئی ہے کہ یہ علم نجوم کے حوالے سے ہندوؤں کے لیے ایک اہم اور خوش بختی والا دن بنتا ہے۔
دوسری طرف آج کے بھارت میں سیاسی حوالے سے کئی ناقدین اس تاریخ کو اس وجہ سے انتہائی بامعنی اور ایک غیر اعلانیہ اشارہ قرار دے رہے ہیں کہ اگلے ماہ کی پانچ تاریخ کو نئی دہلی میں مودی حکومت کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے مابین متازعے خطے جموں کشمیر کے نئی دہلی کے زیر انتظام حصے کی عشروں سے چلی آ رہی خصوصی آئینی حیثیت بدل دیے جانے کا ایک سال بھی پورا ہو جائے گا۔
چند تجزیہ نگاروں کی رائے میں ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کا پانچ اگست کو بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی آئینی حیثیت کے تبدیل کر دیے جانے کا ایک سال پورا ہونے کے موقع پر ہی منعقد کیا جانا اس لیے بھی بہت زیادہ علامتی حیثیت کا حامل ہے، کہ جموں کشمیر بھارت کے زیر انتظام واحد مسلم اکثریتی خطہ ہے۔
تقریب سرکاری ٹیلی وژن پر لائیو دکھائی جائے گی
خبر رساں ادارے اے پی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ ایودھیا، بابری مسجد، رام مندر، جموں کشمیر اور پانچ اگست، یہ سب کچھ اتنا واضح طور پر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے کہ ان حوالوں کے مابین موجود علامتی ربط کو نہ سمجھنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں اور مخالفین دونوں ہی کے لیے نا ممکن ہے۔
ایودھیا میں عشروں پہلے بابری مسجد کے انہدام میں جن ہندو قوم پسندوں نے حصہ لیا تھا، ان کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی، اس کی سرپرست تنظیم آر یس ایس، ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے بھی تھا۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ اب ویشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) یا عالمی ہندو کونسل نے، جو ایک ہندو قوم پسند ادارہ اور بی جے پی کی اتحادی تنظیم ہے، اعلان کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث ایودھیا میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وہاں موجود مہمانوں اور حاضرین کی تعداد تو بہت کم رکھی جائے گی، لیکن یہ پوری تقریب بھارت بھر میں سرکاری ٹیلی وژن پر بھی براہ راست دکھائی جائے گی۔
'رام مندر ہندتوا کے ابھرتے ہوئے قومی احساس کی علامت‘
عالمی ہندو کونسل کے ترجمان ونود بنسل نے اس بارے میں ایک بیان میں کہا، ''ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہمارے معاشرے میں قومی اتحاد، سماجی انضمام اور ہندتوا کے ابھرتے ہوئے قومی احساس کی علامت ہو گی، جو روشنی کا ایک دیرپا اور ابدی مرکز ثابت ہو گا۔‘‘
بابری مسجد اور رام مندر کی جگہ سے متعلق بہت طویل عدالتی تنازعے میں گزشتہ برس نومبر میں ملکی سپریم کورٹ نے اپنا جو فیصلہ سنایا تھا، اس کے مطابق مسجد کی جگہ پر ہندوؤں کو ایک مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس کے برعکس ایک متبادل جگہ کے طور پر مسلمانوں کو پانچ ایکٹر کی ایسی جگہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جہاں وہ اپنی مسجد تعمیر کر سکیں۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد فسادات
بھارت مین دسمبر 1992ء میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد جو ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے تھے، ان میں تقریباﹰ دو ہزار افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرح ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے احمد آباد کے ایک ماہر تعمیرات نے اس مندر کا ایک ایسا ڈیزائن تجویز کیا ہے، جس کے پانچ گنبد ہوں گے اور اس مندر کی عمارت مجموعی طور پر 161 فٹ یا 49 میٹر بلند ہو گی۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اور ہندو یوگی ادتیاناتھ نے کہا ہے کہ ایودھیا میں رام مند رکی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا جانا ہندوؤں کے لیے ان کی 'پانچ سو سالہ جدوجہد‘ کی کامیابی سے تکمیل کا دن ہو گا۔
م م / ا ا (اے پی)