ایچ آئی وی وائرس: انفیکشن کے بعد فوری طبی نگہداشت علاج میں معاون
18 مارچ 2013یہ بات ایک نئی طبی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی انسان کے جسم میں ایچ آئی وائرس کی موجودگی ثابت ہو جانے کے فوراﹰ بعد اگر مریض کا علاج بلا تاخیر شروع کر دیا جائے تو اس وائرس سے متاثرہ افراد کی ایک چھوٹی سی تعداد میں یہ صورت حال ایچ آئی وی وائرس کے عملی طور پر علاج کے لیے کافی ثابت ہو سکتی ہے۔
فرانس میں سائنسدانوں نے 14 ایسے مریضوں کے ایچ آئی ای کے خلاف مخٰتلف ادویات کے ساتھ ان میں اس وائرس کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد فوری علاج کی کوشش کی۔ پھر سات سال یا اس سے بھی زائد عرصے کے لیے اس وائرس سے متاثرہ ان افراد کا علاج روک دیا گیا۔ اب سائنسدانوں کو جو بات حوصلہ افزاء محسوس ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا پتہ چلنے کے بعد اگر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ادویات کا استعمال فوری طور پر شروع کر دیا جائے، تو ایک طویل عرصے تک متعلقہ مریض کے جسم میں اس وائرس کے فعال ہو جانے یعنی مریض کے ایڈز کا شکار ہو جانے کے آثار سالہا سال تک نظر نہیں آتے۔
اس نئی تحقیق کے نتائج PLoS Pathogens نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔ اس سے چند ہفتے قبل اس بارے میں امریکا سے ملنے والی خبروں نے دنیا بھر کے طبی ماہرین کو حیران کر دیا تھا۔ امریکی ریاست Mississippi میں ایک چھوٹی سی بچی کے حوالے سے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ اس کے جسم میں موجود HIV وائرس کا کامیابی سےعلاج کر لیا گیا تھا۔ امریکی ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت اس لیے ممکن ہوئی تھی کہ اس بچی میں ایچ آئی وی وائرس کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد ڈاکٹروں نے مختلف ادویات کے ساتھ اس کا بالکل ابتدائی مرحلے ہی سے علاج شروع کر دیا تھا۔
فرانس میں پیرس کی ڈیکارٹ یونیورسٹی اور Necker ہسپتال کی خاتون پروفیسر کرِسٹِین رُوزِیو (Christine Rouzioux) ایک ایسی محققہ ہیں جو ماہرین کی اس ابتدائی ٹیم میں بھی شامل تھیں، جس نے30 سال قبل ایچ آئی وی وائرس کو شناخت کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر متاثرہ انسان کے جسم میں HIV وائرس کا پتہ چلنے کے بعد اس کے خلاف فوری طور پر کوششیں شروع کر دی جائیں تو پھر کئی سال بعد بھی متعلقہ مریض کے خون میں گردش کرنے والی اس وائرس سے متاثرہ اُن خلیات کی تعداد مسلسل کم ہوتی جاتی ہے، جو بعد میں ایڈز کی بیماری کا باعث بنتے ہیں۔
پروفیسر کرِسٹِین کہتی ہیں کہ ایسے مریضوں میں بہت ابتدائی مرحلے ہی سے وائرس کا علاج شروع کر دینے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی جسم میں اس وائرس کی ممکنہ محفوظ پناہ گاہوں کی تعداد بہت کم رہ جاتی ہے۔ شروع ہی سے ایچ آئی وی وائرس کے خلاف ادویات کے استعمال کی وجہ سے اس جرثومے کی خود کو مسلسل تبدیل کرتے رہنے کی صلاحیت بھی بہت کم رہ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ یہ ابتدائی فوائد اس بات کی وجہ بھی بنتے ہیں کہ مریض کا اس وائرس کے خلاف اپنا جسمانی مدافعتی نظام اور اس کا ردعمل کافی دیر تک دیکھنے میں آتے ہیں۔ فرانسیسی ماہرین کے مطابق اگرچہ ابھی تک ایچ آئی وی وائرس یا ایڈز کی بیماری کا کوئی باقاعدہ علاج دریافت نہیں ہوا، تاہم ماہرین اس وائرس کے ’فنکشنل‘ علاج کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
پروفیسر کرِسٹِین کے مطابق ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ انسان کے جسم میں اس وائرس کی محفوظ پناہ گاہوں کو انتہائی حد تک کم کر دینا تقریباﹰ وہی حالت ہے جسے اس وائرس کے ’فنکشنل علاج‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کے ممکنہ طبی علاج کے برعکس اس کا فنکشنل علاج اس بات کو کہتے ہیں کہ یہ وائرس متعلقہ انسان کے جسم میں پایا تو جاتا ہے اور اس کی موجودگی کی آسانی سے تصدیق بھی ہو جاتی ہے لیکن اسے اس کی تعداد اور خطرناک صلاحیت کے حوالے سے اس قابل نہیں چھوڑا جاتا کہ وہ تھوڑے ہی عرصے میں بہت زیادہ نقصان پہنچاتے ہوئے ایڈز کی بیماری کی وجہ بن جائے۔
اس وقت دنیا بھر میں ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 34 ملین کے قریب ہے۔ ایسے افراد کو اس وائرس کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک غیر فعال رکھنے کے لیے ایڈز کے خلاف ایسی ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں جن کے ضمنی طبی اثرات بھی ہوتے ہیں اور جو انتہائی مہنگی ہوتی ہیں۔
2011ء میں عالمی سطح پر اس وائرس کے نئے شکار بننے والے انسانوں کی مجموعی تعداد 2.5 ملین رہی تھی۔ اقوام متحدہ کے ایڈز کے خلاف پروگرام UNAIDS کے مطابق 2005ء میں اس بیماری کی وجہ سے 2.3 ملین انسان ہلاک ہوئے تھے مگر چھ سال بعد 2011ء میں ایڈز کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کی تعداد کم ہو کر 1.7ملین رہ گئی تھی۔
(ij / mm (Reuters