ایڈز کے پھیلاؤ کا سبب، بد نامی کا خوف
17 اگست 2016یہ جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن کے ایک قحبہ خانے کا منظر ہے جہاں درجنوں سیکس ورکر خواتین کرسیوں میں دھنسی یا پھر بار کی دیواروں سے ٹیک لگائے گاہکوں کی منتظر ہیں۔ انہی عورتوں میں بیالیس سالہ تانیہ بھی ہے جس نے چست لباس پہن رکھا ہے اور اپنی عمر سے کہیں جوان نظر آرہی ہے۔ جسم فروشی یوں تو جنوبی افریقہ میں غیر قانونی ہے تاہم اس کاروبار میں روز افزوں اضافے کے باعث موزمبیق، زمبابوے، سوازی لینڈ اور بوٹسوانا کے ممالک سے بھی خواتین جنوبی افریقہ کا رخ کرتی ہیں۔ ہنسی مذاق اور ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران تانیہ نے بتایا کہ قحبہ خانے میں جسم فروشی، سڑکوں پر یہ کام کرنے سے محفوظ تر ہے۔
تاہم جسم فروش خواتین اپنی صحت کے معاملات میں ڈاکٹروں سےرجوع کرنے میں جھجکتی ہیں۔ تانیہ نے اپنا اصل نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا،’’ جسم فروشی کے پیشے سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین نرس کے پاس ٹیسٹ کروانے کے لیے جانے سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ کیونکہ ان کے ساتھ وہاں حقارت آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور ’طوائف‘ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ تانیہ نے کہا کہ ظاہر ہے کہ سر عام اس طرح بلائے جانے سے تکلیف ہوتی ہے۔
ایڈز کے حوالے سے سن 2015 میں شائع ہوئی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سیکس ورکرز میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی شرح ایسا رسک رکھنے والے تمام گروپوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ڈربن میں جسم فروش خواتین کے گاہکوں میں یہ شرح ترین فیصد ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایڈز کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ آج بھی اس کے مریضوں میں پایا جانے والا بدنامی کا خوف ہے۔ ڈربن میں جسم فروش خواتین کا کہنا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی ہسپتال کا رخ کر بھی لے تو وہاں ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے اور صحت کے مراکز میں آنے پر شرمندہ کیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال اس ملک کی ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ ، قریب سات ملین افراد ایڈز میں مبتلا ہیں ۔ رواں برس جولائی میں جنوبی افریقہ نے ڈربن میں سولہ سال میں پہلی بار انٹرنیشنل ایڈز کانفریس کی میزبانی کی تھی۔ جس میں اٹھارہ ہزار ریسرچرز، سائنسدانوں اور ڈونرز نے شرکت کی ۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ ایڈز سے شدید متاثر ممالک میں سے ایک ہے۔