شمالی غزہ شہر سے منتقلی کی اسرائیلی ملٹری ایڈوائزری
28 اکتوبر 2023اسرائیلیفوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے ہفتے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے تازہ ترین بیان میں لکھا، ''شمالی غزہ پٹی اور غزہ شہر میں موجود لوگ فوری طور پر جنوب کی طرف نقل مکانی کر جائیں۔ یہ محض احتیاطی تدابیر نہیں یہ ایک ہنگامی ملٹری ایڈوائزری ہے۔‘‘
ڈینیئل ہگاری نے مزید کہا، ''آپ کے لیے فوری ایکشن لینے کی مہلت اب ختم ہونے کو ہے۔‘‘ اسرائیلی فوجی ترجمان نے ساتھ ہی یہ بھی کہا،''یہ کال شہریوں کی حفاظت کے لیے ہے۔‘‘
عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کے جنگجوؤں کے خلاف جوابی کارروائی میں اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ پٹی کے ان علاقوں سے شہری انخلا کی ایڈوائزری جاری کی ہے تاکہ جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر فوجی حملوں میں شہری ہلاکتوں سے بچا جا سکے۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے 24 گھنٹے قبل ہی یعنی جمعے کے روز ایک ٹیلی وژن خطاب میں کہا گیا تھا، ''ہم غزہ شہر اور اس کے اطراف میں حملے جاری رکھیں گے۔ گزشتہ چند دنوں میں کیے گئے حملوں کے علاوہ زمینی افواج آج رات اپنی کارروائیوں کو بڑھا رہی ہیں۔‘‘
اسرائیلی فوج پہلے ہی بارہا غزہ پٹی کے شمالی علاقے کے لوگوں سے جنوب کی طرف جانے کا کہہ چُکی ہے تاہم یہ علاقہ بھی اب بڑے پیمانے پر سیل کر دیا گیا ہے. اسرائیلی فوج کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ کے جنوبی علاقے میں اب تک کم از کم 700,000 افراد موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق چودہ لاکھ باشندے غزہ میں اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ مجموعی طور پر بائیس لاکھ سے زیادہ لوگ دنیا کے اس گنجان آباد ترین علاقے میں رہنے پر مجبور ہیں۔
طبی امداد کی فراہمی مکمل طور پر مفلوج
غزہ میں وزارت صحت کے مطابق غزہ پٹی میں مواصلات کے ذرائع کا استعمال ناممکن ہونے کی وجہ سے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ منقطع ہو چکا ہے اور اس کے سبب طبی امداد کا کام ''مکمل طور پر مفلوج‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔
عینی شاہدین نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ ایمبولینس اور سویلین گارڈز حملے کے شکار مقامات پر زخمی افراد تک پہنچنے یا لاشوں کو نکالنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی باشندے اپنی نجی گاڑیوں میں زخمیوں کو طبی امداد کے لیے منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزارت صحت کے ایک ترجمان اشرف الخضرہ نے ایک بیان میں کہا، ''مواصلاتی بندش نے ایمبولینسوں اور طبی ٹیموں کو اپنی خدمات انجام دینے سے محروم کر دیا ہے۔ وزارت صحت، غزہ میں باقی حکومتی انتظامیہ کی طرح عسکریت پسند گروپ حماس کے زیر کنٹرول تھی، جو اسرائیل پرسات اکتوبر کو ہونے والے خونریز حملوں کا ذمہ دار بھی ہے۔
حماس کے جنگجوؤں کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہی اسرائیلی فوج نے غزہ پٹی میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا آپریشن شروع کیا، جو اب انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ غزہ پٹی میں اسرائیلی دفاعی افواج کی باقاعدہ زمینی کارروائی کی تیاری جاری ہے۔ اسی سلسلے میں اسرائیلی دستوں نے جنگی طیاروں اور ڈرونز کے سائے میں غزہ پٹی میں چھاپہ مار کارروائیاں کی ہیں، جن میں جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مزید ہلاکتوں کا خدشہ
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے ہفتے کے روز خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نےغزہ میں ایک بڑی زمینی کارروائی پر زور دیا تو مزید ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں کا خدشہ موجود ہے۔
فولکر ترک کے بقول، ’’ 56 سالہ قبضے کے تناظر میں اب تک جس طرح سے فوجی آپریشن کیے گئے ہیں، اس کے پیش نظر میں غزہ میں بڑے پیمانے پر زمینی کارروائیوں کے ممکنہ تباہ کن نتائج اور مزید ہزاروں شہریوں کے ہلاک ہونے کے امکانات کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ''غزہ میں کوئی محفوظ جگہ نہیں بچی ہے اور نہ ہی باہر نکلنے کا کوئی راستہ ہے۔ میں اپنے ساتھیوں کے لیے بہت پریشان ہوں ویسے ہی جیسے کہ میں غزہ کے تمام شہریوں کے لیے فکر مند ہوں۔‘‘
اسرائیلی حکام کے مطابق سات اکتوبر کو غزہ کی سرحد پر حماس کے جنگجوؤں کے حملے کے نتیجے میں 1,400 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری ہی تھے جبکہ 220 سے زائد کو یرغمالی بنا لیا گیا تھا۔ ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد اسرائیل نے بمباری کا سلسلہ شروع کیا، جس کو مزید توسیع دی جا رہی ہے۔
ک م/ ع ب، ش ر(ڈی پی اے)