ایک اور کشتی سمندر برد، قریب چالیس مہاجرین ہلاک
30 جنوری 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی کی انقرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ترکی کے مغربی ساحلی علاقے کے قریب تارکین وطن کی اس کشتی کے ڈوب جانے کے نتیجے میں پہلے تو کم از کم 33 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی اور پھر کہا گیا کہ نئی اطلاعات کے مطابق قریب 40 تارکین وطن ڈوب گئے ہیں۔ اس غرقابی کے بعد امدادی کارکنوں نے کھلے سمندر سے 70 سے زائد افراد کو بچا لیا۔
ملکی نیوز ایجنسی دوگان اور ترک ساحلی شہر آیواجیک کے میئر نے بتایا کہ ساحلی محافظ آخری خبریں آنے تک بحیرہ ایجیئن کے پانیوں میں لاپتہ ہو جانے والے افراد کی تلاش جاری رکھے ہوئے تھے۔ تارکین وطن سے بھری ہوئی اس کشتی کے ڈوبنے کا یہ واقعہ آیواجیک شہر قریبی سمندری علاقے میں پیش آیا۔
یہ کشتی آیواجیک سے مہاجرین کو لے کر یونانی جزیرے لیسبوس کی جانب روانہ تھی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کشتی میں مجموعی طور پر کتنے تارکین وطن سوار تھے۔
آیواجیک کے میئر محمد اُنال نے سی این این کے ترکی زبان کے نیوز چینل سے گفتگو میں کہا، ’’ابھی تک کہا جا رہا تھا کہ 33 افراد ہلاک ہوئے۔ مجھے خدشہ تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اب امدادی کارکن کہہ رہے ہیں کہ ہلاک شدگان کی تعداد40 کے قریب ہو گئی ہے۔ لاپتہ افراد کو ابھی تک ڈھونڈا جا رہا ہے۔‘‘
محمد اُنال نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ’’آج طلوع آفتاب سے پہلے ہی سے یہ امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے سامنے ترک ساحلی پٹی کی چوڑائی 80 کلومیٹربنتی ہے۔ ہمارے لیے اتنے بڑے ساحلی علاقے کے ہر حصے کی انتہائی سخت اور ہر وقت نگرانی ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے ہم ان سبھی پناہ گزینوں کو یونان کی طرف ان کے خطرناک سمندری سفر سے نہیں روک سکتے۔‘‘
دوگان نیوز ایجنسی کے مطابق آج ڈوب کر ہلاک ہونے والے جن افراد کی لاشیں اب تک ملی ہیں، ان میں کم از کم پانچ بچے بھی شامل ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کشتی میں سوار زیادہ تر مسافر شامی، افغان یا پھر میانمار کے باشندے تھے۔
گزشتہ برس بحیرہ ایجیئن کے سمندری راستوں کے ذریعے ترکی سے یونانی جزیروں تک پہنچنے کی کوششوں میں 3600 سے زائد پناہ گزین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔ ان دنوں برے موسم اور شدید سردی کی وجہ سے ایسے حادثات میں کافی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔