ایک جرم آدھے لمحے کا اور ’پاک سرزمین‘ جو ہلی مگر پھٹ نہ سکی
10 ستمبر 2020رات کے وقت عام شہریوں کی طرف سے اپنے گھروں کے سامنے رکھ دیے گئے پلاسٹک کے بڑے بڑے کوڑے دان صبح سویرے خالی کر کے کوڑا لے جانے والا بلدیہ کا ٹرک سڑک پر ایک زیبرا کراسنگ کے قریب ہی تھا اور ایک راہگیر سڑک پار کرنا چاہتا تھا۔ راہگیر ابھی زیبرا کراسنگ سے چند قدم دور تھا، اس لیے ٹرک ڈرائیور نے رفتار کم ہونے کے باوجود اس کو سڑک پار کرنے کا موقع دینے کے لیے رکنا مناسب نہ سمجھا۔ بلدیہ کا ٹرک گزرا تو تب تک راہگیر بھی زیبرا کراسنگ سے محض ایک قدم کے فاصلے پر تھا۔ ٹرک کے پیچھے ایک گاڑی تھی، جس کا ڈرائیور راہگیر کو دیکھ نہ سکا تھا۔ اس نے بھی جلدی سے گزر جانا چاہا، مگر یہ دیکھنے پر کہ راہگیر سڑک پار کرنے کو تیار تھا، اس نے فوراﹰ ایسے بریک لگائی کہ اس کی گاڑی کے پہیے سڑک پر بنی سفید دھاریوں سے چند فٹ کے فاصلے پر یکدم جامد ہو گئے۔ ڈرائیور نے پریشانی اور اپنی غلطی پر شدید ندامت سے فوراﹰ اپنے ہاتھ سٹیئرنگ سے اٹھا لیے، جیسے معذرت کر رہا ہو۔ راہگیر نے مسکرا کر گاڑی کے ڈرائیور کو دیکھا، جیسے شکریہ کہہ رہا ہو اور سڑک پار کر گیا۔
میں سوچنے لگا کہ اگر میں ایک لمحے کی تاخیر سے بھی سڑک پار کر لیتا تو کیا فرق پڑتا؟ وہ ڈرائیور جس نے زیبرا کراسنگ کے بالکل قریب پہنچ کر بھی بریک لگا دی، وہ اگر گزر بھی جاتا تو کون سی بری یا بڑی بات تھی۔ لیکن یہ بات میں بھی جانتا ہوں اور وہ ڈرائیور بھی جانتا تھا کہ بات وقت کی تو تھی ہی نہیں۔ بات تو قانون اور اس کے احترام کی تھی، دوسروں کے حقوق کی اپنے فائدے کے لیے نفی نہ کرنے کے اصول کی۔ اسی لیے اس ڈرائیور نے یکدم بریک لگائی تھی۔ فیصلہ کن بات اس کے ذہن میں محض آدھے لمحے میں آنے والی یہ سوچ تھی کہ اسے رکنا چاہیے تھا۔ اس نے خود کو اس جرم سے بچا لیا تھا، جس کا وہ اسی آدھے لمحے میں مرتکب ہو سکتا تھا۔ جرم اس لیے کہ قانون بھی اور سماجی روایت بھی یہی ہے کہ گاڑیوں والوں کو سڑک پر پیدل چلنے والوں کو پہلے گزرنے دینا چاہیے۔ یہ ایک ایسے معاشرے کی بات ہے، جہاں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے عقیدے پر آزادی سے عمل کا مختار ہے لیکن قانون کو اس کی عملی مقصدیت اور افادیت کی وجہ سے اتنا اہم سمجھا جاتا ہے کہ وہ مقدس ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف اسلام کے نام پر قائم ہونے والا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جسے اس کے سیاستدان اور مسلم مذہبی رہنما اسلام کا قلعہ قرار دیتے ہیں اور جس کے آئین میں بھی لکھا کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ کے پاس ہے۔ اسی پاکستان کے شہر لاہور کے گجر پورہ نامی علاقے کے قریب عام طور پر بہت محفوظ سمجھی جانے والی موٹر وے پر گوجرانوالہ کی رہائشی ایک خاتون اپنی بہن سے مل کر رات کے وقت واپس جا رہی ہوتی ہے تو اس کی گاڑی کا پٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ پھر ڈاکو آتے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی اس خاتون کی گاڑی کا شیشہ توڑ کر پہلے نقد رقم اور زیورات اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں اور پھر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرتے ہیں۔ اگر کسی کو انتہائی شدید نوعیت کے جرم کے طور پر اجتماعی زیادتی کے معانی سمجھنے میں کوئی مشکل ہو، تو وہ جان لے کہ اپنے بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی اس پاکستانی خاتون اور ماں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، وہ گینگ ریپ تھا ۔ کسی خاتون کے ساتھ کیا جانے والا وہ جسمانی جرم، جس کے ارتکاب کے ساتھ ظلم، دکھ، انسانی تذلیل اور اذیت اپنی گہرائی کی آخری حدوں کو پہنچ جاتے ہیں۔
لاہور کی اس موٹر وے پر ڈکیتی اور بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی خاتون کو لوٹنے کے بعد اس سے کی گئی اجتماعی زیادتی پاکستان میں خواتین اور بچیوں کے خلاف کیے جانے والے گھناؤنے جرائم کی کوئی پہلی مثال نہیں ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی کراچی میں ایک پانچ سالہ بچی کو ریپ کے بعد قتل کر کے اس کی کپڑے میں لپٹی لاش کوڑے کے ایک ڈھیر پر پھینک دی گئی تھی۔ گزشتہ ماہ صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں ایک چھ سالہ بچی کو بھی اسی طرح اغوا کر کے پہلے ریپ اور پھر قتل کر دیا گیا تھا۔ قصور کی زینب بھی ابھی زیادہ تر پاکستانیوں کو یاد ہی ہو گی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جرمنی میں اپنے دفتر جاتے ہوئے آج صبح ہی میرے ساتھ پیش آنے والے کوڑے کے ٹرک والے واقعے اور لاہور کی موٹر وے پر گینگ ریپ میں کیا فرق ہے؟ فرق قانون کے عملی احترام اور دوسروں کے حقوق کی تقدیس کے عملی اعتراف کا ہے۔ ایک ڈرائیور نے خود کو آدھے لمحے میں اس جرم سے بچا لیا، جو بظاہر ایک انتہائی معمولی سا جرم ہوتا، نہ کہ کوئی بڑا گناہ بھی۔ دوسری طرف اس ملک میں، جسے حکمران مدینہ کی ریاست جیسی ریاست بنانے کی اپنی کوششوں کا مسلسل ذکر کرتے رہتے ہیں، گوجرانوالہ کی اس خاتون شہری کے ساتھ موٹر وے پر جو کچھ ہوا، وہ انتہائی سنگین جرم بھی ہے اور بہت بڑا گناہ بھی۔ یہاں گناہ اس لیے لکھا جا رہا ہے کہ پاکستان میں آبادی کی بہت بڑی اکثریت کو ہر بات ایک مذہب کے طور پر اسلام اور مذہبی پس منظر میں ہی سمجھ آتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس بہت بڑے جرم اور گناہ کے ارتکاب پر زمین ہلی تو ہو گی، لیکن اتنے ہولناک ظلم پر 'پاک سرزمین‘ کا وہ ٹکڑا کرب کی شدت سے پھٹ کیوں نہ گیا؟
ایسا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن نہیں ہوا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گزشتہ سات عشروں سے چادر اور چار دیواری کے تحفظ کی کوششیں کرنے والوں سے یہ بھی تو پوچھنا چاہیے کہ کراچی میں کوڑے کے ڈھیر سے ملنے والی پانچ سالہ بچی کی لاش کا کیا کیا جائے؟ موٹر وے پر گینگ ریپ کے بعد کوئی ماں جب مالی، جسمانی اور اخلاقی حوالے سے لٹنے کے بعد مدد کے لیے ریسکیو ٹیم کو فون کرنے کی کوشش کر رہی تھی، تو اس کے بچے کیا سوچ رہے تھے؟
بات یہ ہے کہ ملک، وطن اور ریاست بہت اہم ہوتے ہیں اور قانون بھی۔ لیکن ظلم ختم نہ ہو تو وطن زمین کا ٹکڑا بن کر اور قانون کا احترام نہ کیا جائے تو وہ صرف کاغذ پر چھپے ہوئے لفظ بن کر رہ جاتا ہے۔ کسی بھی وطن کو 'پاک سرزمین‘ اور کسی بھی قانون کو محترم متعلقہ معاشرے کے لوگ بناتے ہیں۔ کتابوں میں قانون سازی کرنے سے انسانوں میں پائی جانے والے حیوانیت ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ایسے جرائم کے مرتکب افراد کی حیوانیت کو انسانیت میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں مثالی سزائیں دی جائیں۔ پاکستان میں ایسے کئی بڑے بڑے اور گھناؤنے جرائم کے مرتکب افراد سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔ نیب کی عدالتوں میں کرپشن کے مقدمے چلانے سے کہیں زیادہ ضروری اور فوری نوعیت کی بات یہ ہے کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جائے۔ پاکستانی بچیوں اور عورتوں کو اس ظلم، ریپ، بے لباسی، بے توقیری اور جسمانی اور غیر جسمانی قتل سے بچایا جائے، جن کے بعد انہیں یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ اگر زندہ بچ بھی جائیں تو وہ اور ان کے خاندان ذہنی، نفسیاتی اور سماجی طور پر زندہ در گور ہو جاتے ہیں۔
اب ہو گا کیا؟ یہ بظاہر کوئی نہیں جانتا۔ لیکن یہی بات تو ہر کوئی جانتا بھی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اس 'واقعے‘ کا 'نوٹس‘ لے لیا ہے! مقامی میڈیا کی خبروں اور سرخیوں میں یہی لکھا ہے، ''وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے لیا۔‘‘ ذرا سا غور کیا جائے تو اس سے زیادہ اجتماعی بےحسی کا مظہر اور کوئی ردعمل بھلا کیا ہو گا؟ یہ کوئی خبر ہی نہیں کہ نوٹس لے لیا گیا ہے۔ یہ سمجھنا اتنا مشکل کیوں ہے کہ عوامی نمائندوں کے طور پر حمکران اور عوامی ملازمین کے طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ اپنا کام کریں۔ نوٹس لینا تو ان کا فرض ہے۔ اصل بات تو روک تھام ہے۔ تو پھر تدارک کب ہو گا؟ اس کے لیے کسی تاریخ یا وقت کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
نوٹس لے لیا گیا ہے! گزشتہ سات عشروں سے زائد عرصے سے نوٹس ہی لیا جا رہا ہے۔ نوٹس لینے والے بدلتے رہتے ہیں لیکن یہ کام جاری ہے۔ پھر بھی اگر کوئی یہ پوچھے کہ اب آگے کیا ہو گا، تو جواب ہے: اگلا مرحلہ نوٹس لیے جانے کے بعد ہی آئے گا۔ پہلے پہلا مرحلہ مکمل ہونے دیں۔