کسی شعبے میں بھارت سے کچھ نیچے اور کہیں کچھ اوپر۔ ایک بھارت ہی تو تھا، جس سے بزعمِ خود ہمارا مقابلہ تھا۔
مگر اب تو پھسلتے ہی جا رہے ہیں۔ بھارت تو کم بخت مارا جانے کدھر چلا گیا۔ اب تو ہم افغانستان اور نیپال سے ہی خود کو بہتر ثابت کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا نام بھی تب ہی لیتے ہیں، جب کمرے میں کوئی اور نہ ہو۔
ریکارڈ ہولڈر ہم آج بھی ہیں۔کوئی بھی عالمی انڈیکس اٹھا کے دیکھ لیں کہیں نہ کہیں کسی نچلی رینکنگ میں کسی بھی صحارا پار افریقی ملک کے آگے پیچھے مل جائیں گے۔
مثلاً انسانی ترقی کے عالمی معیار کی انڈیکس میں ہم ایک سو بانوے ممالک کی فہرست میں کئی برس سے ایک سو ساٹھ تا باسٹھ کے درمیان جھول رہے ہیں۔ جبکہ بھارت اس فہرست میں ایک سو بتیس، بنگلہ دیش ایک سو انتیس اور سری لنکا اقتصادی دیوالیہ پن کی چوکھٹ چومنے کے بعد بھی تہترویں نمبر پر ہے۔
خوشی بس اتنی ہے کہ انسانی ترقی کے معیار کی بابت خطے میں ہم سے بھی بری حالت صرف افغانستان کی ہے۔ ہم اس پر بھی خوش ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ہماری اوسط عمر کم ازکم افغانستان سے زیادہ ہے۔ ہم اس پر بھی شکر ادا کر سکتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اگر ہماری آبادی کی شرحِ افزائش بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور ایران سے زیادہ ہے تو افغانستان سے پھر بھی کم ہے۔
ہم اس پر بھی خود کو تسلی دے سکتے ہیں کہ دنیا میں اگر ہمارا پاسپورٹ ویزا فری سفر کی ہینلے فہرست میں چوتھا سب سے برا پاسپورٹ ہے تو کیا ہوا۔ ہم سے بھی نیچے شام ، عراق اور افغانستان کے پاسپورٹ ہیں۔
اب یہ مت پوچھیے گا کہ مذکورہ تینوں ممالک کو تو خانہ جنگی اور بیرونی مداخلت نے برباد کر دیا اور ان کی آدھی سے زیادہ آبادی دربدر ہو گئی مگر ہمارا پاسپورٹ کیوں آخر مسلسل تین برس سے چوتھے نچلے ترین پائیدان پر جھول رہا ہے جبکہ ہم تو ایٹمی طاقت ہیں اور افغانستان، عراق اور شام کے مقابلے میں ہمارے امن و امان و معیشت اور ریاستی استحکام کے حالات کہیں بہتر ہیں۔
تو پھر ہمارے پاسپورٹ کو کوئی ٹکے سیر بھی کیوں نہیں پوچھ رہا اور کیسا لگتا ہے جب ہینلیز کی طاقت ور پاسپورٹ کی فہرست میں صومالیہ ، شمالی کوریا، ایران اور فلسطینی اتھارٹی کا پاسپورٹ ہم سے بہتر رینکنگ میں دکھائی دیتا ہے۔
اور پھر کیسا لگتا ہے یہ سن کر کہ انیس سو تراسی تک اسی سبز پاسپورٹ پر جنوبی افریقہ، اسرائیل اور سوویت یونین سمیت کیمونسٹ بلاک کے سوا ہر ملک میں پاکستانیوں کے لئے آن آرائیول ویزہ تھا۔
آج صورت یوں ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر صرف دس ممالک میں ویزہ کے بغیر داخل ہوا جا سکتا ہے اور ان میں سے بھی ایک آدھ چھوڑ کے باقی ممالک یا جزیرے وہ ہیں، جن کے نام تک عام پاکستانی نہیں جانتا۔ مثلاً ونوتو کا نام کتنے پاکستانیوں نے سنا ہو گا حالانکہ وہاں ہم جب چاہیں بنا ویزہ جا سکتے ہیں۔
یہ مقام ہم نے بہت محنت سے حاصل کیا ہے۔ بالکل ایسے جیسے سن انیس اسی کے عشرے تک پاکستان عالمی ہاکی کا بادشاہ اور کرکٹ کی پانچ چوٹی کی ٹیموں میں شامل تھا۔ اسکواش پر پاکستان کی حکمرانی تھی۔
کھیل کے میدان میں سوائے کرکٹ گزشتہ بیس برس کے دوران جتنی بھی کامیابیاں ہیں وہ سب کی سب انفرادی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ جب کوئی ٹیم یا کھلاڑی اپنے خرچے پر جیت جاتا ہے یا کوئی چوٹی سر کر لیتا ہے تو حکمران اس کے ساتھ کھڑے ہو کر فوٹو ضرور کھنچوا لیتے ہیں۔
بالکل ایسے ہی جیسے پی آئی اے کا شمار انیس سو ساٹھ کے عشرے تک سروس کے اعتبار سے دس معیاری عالمی فضائی کمپنیوں میں تھا۔ آج پی آئی اے سفید ہاتھی ہے۔ اس کے آسمانوں پر خلیجی فضائی کمپنیوں کی حکمرانی ہے۔
پی آئی اے کے اکثر ریٹائرڈ افسر گھوم پھر کے وہی کہانی ایک سو چونتیسویں بار سنائیں گے کہ دبئی سے پہلے کراچی گیٹ وے آف ایشیا کہلاتا تھا۔ یہاں دن بھر میں تینتالیس ایئرلائنز کے طیارے اترتے تھے۔کئی ایئرلائنز اپنے طیاروں کی اوور ہالنگ اور ٹیکنیکل دیکھ بھال ہم سے کرواتی تھیں۔ مالٹا، یمن، زمبابوے اور یو اے ای کی الامارات کا ابتدائی ڈھانچہ پی آئی اے نے قائم کر کے دیا تھا وغیرہ وغیرہ۔
مگر آج تو بس دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پی آئی اے کا کوئی بھی طیارہ غیر معیاری سروس یا واجبات کی عدم ادائیگی کی پاداش میں مشرقِ بعید یا یورپ کے کسی ہوائی اڈے پر عارضی ضبط نہ ہو جائے۔
جی ہاں یہ وہی عروس البلاد کراچی ہے، جو ساٹھ کے عشرے تک اپنی صفائی ستھرائی اور امن و امان کے سبب ایشیا کے دس بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کی سڑکوں اور ساحل پر یورپی باشندے بکثرت ٹہلتے تھے۔
اور یہ وہی کراچی ہے جو آج برطانوی جریدے اکانومسٹ کی تازہ ترین فہرست میں دنیا کے ایک سو تہتر ناقابل ِ رہائش شہروں میں چوتھا بدترین شہر ہے۔ اس سے نیچے صرف لاگوس، الجئیرز ، تریپولی اور دمشق ہیں۔ یہ اعزاز کم وبیش گزشتہ چار برس سے برقرار ہے۔
دو ہزار انیس میں بھی کراچی ایک سو چالیس ناقابلِ رہائش شہروں کی فہرست میں ایک سو چھتیسویں نمبر پر تھا۔ دو ہزار بائیس میں یہ چھٹا بدترین شہر تھا۔ دو ہزار تئیس میں یہ چھٹے سے دوبارہ چوتھے نمبر پر آ گیا۔
جبکہ چار ماہ پہلے فضائی آلودگی کی جانچ کرنے والے سوئس سروے میں لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرار دیا گیا۔ لاہور کے بعد فضائی آلودگی کے اعتبار سے بدترین شہروں میں چینی شہر ہوتان اور پھر بھارت کا شہر بھیونڈی اور پھر دلی ہے۔
ہم اور افغانستان بس دو ہی ممالک بچے ہیں جہاں پولیو کا مرض اب تک قابو میں نہیں آیا۔
میں نے بہت کوشش کی کہ ان تمام منفی انڈیکیٹرز کی ذمہ داری پاکستان دشمن عالمی و علاقائی قوتوں بشمول آئی ایم ایف پر ڈال سکوں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس پر ڈالوں؟
مگر یہ تو طے ہے کہ جو کچھ بھی برا ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے۔ اس میں سے کسی کے ذمہ دار نہ ہم تھے، ہیں، نہ ہوں گے۔ ہم تو بس ایک بات جانتے ہیں۔ انشااللہ ایک روز سب خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ گورننس بھی، معیشت بھی، سماج بھی، ادارے بھی، امیج بھی اور پاسپورٹ بھی۔ ہم تو دیکھ ہی رہے ہیں۔ بس آپ بھی دیکھتے چلے جائیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔