کیپٹل ہِل پر حملے کا ایک سال
6 جنوری 2022دو صدیوں سے زائد وقت سے امریکی صدارتی انتخابی نتائج کے بارے میں کانگریس سے توثیقی ووٹ ایک طرح سے قاعدے کی کارروائی چلی آئی رہی ہے۔ تاہم چھ جنوری 2021ء کو پیش آنے والے معاملات نے اس موقع کو ایک ایسا لمحہ بنا دیا جس کے بارے میں بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اس نے امریکی جمہوریت کی بنیادوں کو ہلا دیا۔
اس وقت جب امریکی قانون ساز اس مقصد کے لیے پارلیمان کی عمارت میں جمع تھے کہ وہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی فتح کی توثیق کر سکیں، انتخابات میں شکست خوردہ اور اس وقت تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہجوم سے خطاب کیا۔ اس ہجوم کو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا میڈیا کئی ہفتوں سے 'بِگ لائی‘ یا بہت بڑے جھوٹ کے بارے میں بتاتا رہا تھا یا پھر یہ QAnon یا Proud Boys جیسے نیو فاشسٹ گروپوں کے آن لائن سازشی تھیوریز سے متاثر تھے۔ ان سب کا ایک ہی دعویٰ تھا کہ جو بائیڈن نے 2020ء کے صدارتی انتخابات چوری کیے تھے۔
اس چوری کو روکنے کے لیے ٹرمپ کے وفاداروں نے کیپٹل ہِل میں ہنگامہ آرائی کا طوفان کھڑا کر دیا جس کا مقصد تھا کہ کانگریس کو جو بائیڈن کی فتح کے لیے توثیق سے روکا جائے۔
واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے اس فساد کے دورانٹرمپ کے حامی چار افراد اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا جبکہ 140 دیگر زخمی ہوئے۔ اس ہنگامہ آرائی پر دونوں امریکی سیاسی دھڑوں کی طرف سے مشترکہ طور پر شدید مذمت کی گئی۔
ٹرمپ کے اثرات کے بارے میں ریپبلکنز کے خدشات
جب تک ٹرمپ کا مواخذہ کیا گیا اور جس کے بعد انہیں حملہ کرانے کی کوشش کے الزام سے بری کر دیا گیا، بِگ لائی یا بڑے جھوٹ کے خلاف اٹھنے والی متفقہ مزاحمتی آوازیں جماعتی بنیادوں پر تقسیم ہو گئیں۔
سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے شعبہ جمہوری اداروں کی دفاع کی ڈائریکٹر سوزانے سپالڈنگ کے مطابق، ''میرے خیال سے (ریپبلکنز) نے اس کے بعد کے ہفتوں اور مہینوں کے دوران یہ دیکھا کہ (ٹرمپ) کا ریپبلکن پارٹی پر کنٹرول قائم رہا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ سابق صدر نے ری پبلکن پارٹی کے ان ارکان کو باقاعدہ دھمکیاں بھی دیں، جنہوں نے ان سے دوری اختیار کر لی تھی۔
ٹرمپ اور ٹرمپ کے بہت سے قریبی افراد ابھی تک اس فساد کے حوالے سے زیر تفتیش ہیں۔ لیکن لوگوں کی رائے کی عدالت میں، سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر پھیلائی گئی بہت سی غلط معلومات کی موجودگی میں بہت سے لوگوں کے خیال میں سابق صدر کے اقدامات جائز تھے۔
ریپبلکن پارٹی کے قریب نصف ووٹرز سمجھتے ہیں کہ کیپٹل ہل میں پیش آنے والے واقعات، احتجاج کا جائز طریقہ تھے۔ یہ بات مونماؤتھ یونیورسٹی کے جون 2021ء میں کرائے گئے ایک سروے سے معلوم ہوئی۔
ٹرمپ کی ریلی میں شرکت کے لیے ملک بھر سے آئے ہوئے زیادہ تر لوگ چرائے گئے انتخابات کی سازشی تھیوریز پر یقین رکھتے تھے۔ ان میں سے بعض کو اپنے کیے پر قانونی نتائج بھی بھگتنا پڑے جبکہ دیگر کو مقدمات کا انتظار ہے۔
انصاف کی راہ
امریکی وفاقی تفتیشی ایجنسی ایف بی آئی نے نگرانی کے لیے نصب کیمروں، یو ٹیوب ویڈیوز اور موبائل فون سے بنائی گئی فوٹیج سے حاصل شدہ شواہد کی روشنی میں 727 افراد پر الزامات عائد کیے۔ ان پر عائد کیے گئے الزامات میں سرکاری کارگزاری کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا، خطرناک ہتھیار کا استعمال اور حملہ کرنے جیسے الزامات شامل ہیں۔
ان لوگوں میں سے جن پر الزامات عائد ہوئے، بعض کو بہت ہی معمولی یعنی 500 ڈالرز تک کے جرمانے کیے گئے جبکہ کئی دیگر کو ایک پولیس افسر پر حملہ کرنے کے جرم میں پانچ سال تک قید کی سزا کاٹنا ہو گی۔
معلومات کی رسائی میں خلل
رائے کے حوالے سے تقسیم شدہ لوگوں کی اب سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے کردار پر بتدریج توجہ بڑھ رہی کہ حقائق کو کس طرح مسخ کیا گیا اور اس پر بحث و مباحثہ ہوا۔
اوریگون یونیورسٹی کے شعبہ جرنلزم اینڈ کمیونیکیشن کی ڈین ریگینا لارنس کے مطابق سوشل میڈیا الگوردھمز کے سبب، ''لوگوں کو اب پہلے سے زیادہ شدید تر نقطہ ہائے نظر مل رہے ہیں۔‘‘
بات اگر مین اسٹریم میڈیا کے کاٹ دار ڈائیلاگ کی کی جائے تو لارنس کا کہنا ہے کہ سیاسی اداروں کو چاہیے کہ وہ چھ جنوری کے واقعات پر زیادہ جارحانہ نقطہ نظر اپنائیں یہ مانتے ہوئے کہ میڈیا ان کے اسی نقطہ نظر کو آگے پھیلائے گا۔
چھ جنوری کے واقعات کے بارے میں لوگوں میں مشترکہ رائے کو فروغ دینے اور ذمہ داروں کے تعین کے حوالے معلومات کے فرق کو ختم کرنے کے لیے میڈیا کے علاوہ دیگر سادہ طریقے بھی موجود ہیں۔
لارنس کے بقول، ''اس پر مناسب ریسرچ موجود ہے کہ ایک مشکل عمل ہونے کے باوجود ایسے لوگوں کو ہر ممکن حد تک سنا جانا چاہیے جو اس طرح کے سخت نظریات رکھتے ہیں تاکہ اس بات کو سمجھا جا سکے کہ لوگ اس پر کیوں یقین رکھتے ہیں کہ جس چیز پر وہ یقین رکھتے ہیں وہ واقعی مددگار ثابت ہو گی۔‘‘
مارشل جان (ا ب ا/ ا ا)