1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک لقمے کی سزا موت

1 فروری 2019

یہ کون لوگ ہیں؟ کس طرح کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں؟ وہ کونسا لمحہ ہے جو کسی انسان کو حیوانیت پر اکساتا ہے؟ بھلا کوئی کیسے کسی کو ایک نوالہ کھانے پر جان سے مار سکتا ہے، یہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟

https://p.dw.com/p/3CYn1
Rafia Awan - DW Urdu
تصویر: DW/A. Baig-Awan

صحیح غلط تو دور کی بات، یہاں انسانیت کی ابتدائی قدروں تک سے آشنائی نہیں۔ عظمیٰ ایک غریب چوکیدار کی بیٹی تھی۔  وہ عمر کی چھوٹی گھر کی بڑی تھی۔ اسی لیے ملازمت کی غرض سے لاہور آگئی ۔ لاہور کے جس خاندان کے پاس عظمیٰ بطور ملازمہ کام کر رہی تھی، وہ اسے کئی ماہ سے تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا۔ عظمیٰ کو اکثر اوقات ناکردہ گناہوں کے جرم میں بھوکا رکھا جاتا اور ظلم کی انتہا یہ کہ جب عظمیٰ کے اہلخانہ اس سے ملاقات کے لیے آتے تو ان سے کہا جاتا کہ وہ دوسرے شہر گئی ہوئی ہے۔ یہ سب تو شاید روز کا معمول ہوگا، لیکن مالکن کی چھوٹی بیٹی کی پلیٹ سے محض ایک لقمہ کھا لینا، عظمیٰ کا سب سے بڑا جرم ٹھہرا، جس کی پاداش میں اسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اپنی لاڈلی بیٹی کی پلیٹ سے ایک نوالہ کھانے کے جرم میں عظمیٰ کی مالکن نے اسے اتنا  مارا کہ وہ بالکل نیم جاں ہوگئی اور  افسوس کے  طبی امداد کیبجائے عظمیٰ کو بجلی کے جھٹکے دیے گئے تاکہ اس میں جان واپس آسکے۔لیکن عظمیٰ کوئی الیکٹرک گڑیا نہیں تھی، کہ بجلی کے جھٹکوں سے ٹھیک ہوجاتی۔ ظالموں نے عظمیٰ  کو مار ہی ڈالا۔  عظمیٰ کی لاش کو بوری میں بند کرکے  نالے میں پھینک دیا اور یہ دعویٰ بھی کیاکہ عظمیٰ ان کے گھر سے چوری کرکے کہیں غائب ہوگئی ہے۔

عظمیٰ کی لاش دو دن بعد گندے نالے سے برآمد کر لی گئی۔ اہلخانہ کے مطابق اس کے چہرے سمیت پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ اُسے اِس بری طرح سے مارا پیٹا گیا تھا کہ اس کی ہڈیاں جگہ جگہ سے فریکچر ہوگئی تھیں۔

ابھی تو ہم راولپنڈی کی کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ کو نہیں بھولے تھے کہ اب لاہور میں ایک اور گھریلو ملازمہ پر تشدد اور بہیمانہ قتل کا واقعہ بھی اِن دنوں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے اور لوگ 'عظمیٰ کو انصاف دوکی آواز بلند کررہے ہیں ۔

آجکل  حکام بالا  تک پہنچنا ہو توسوشل میڈیا کا سہارا لیا جا تا ہے تاکہ ان وائرل پوسٹس کا نوٹس لے کر مناسب کارروائی کا دلاسہ  اور خبروں کی شہ سرخیاں شاید متاثرین کا کچھ  درد کم کرسکیں۔

اس واقعہ میں قتل کے اقرار کے بعد پولیس کی تفتیش میں تینوں خواتین کو قصوروار قرار  دیتے ہوئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے اب یہ خواتین نادم ہونے کے ساتھ ساتھ معافی کی بھی طلب گار ہیں۔ یہ معافی بستر مرگ پر بجلی کے جھٹکے سہتی عظمیٰ کے کرب اور تکلیف کا مداوا نہیں کر سکتی۔ یہ معافی عظمیٰ کو واپس نہیں لاسکتی اور یہ معافی اب کسی کام کی نہیں۔

پنجاب اسمبلی میں اس غریب اور بے گناہ لڑکی کے ’بہیمانہ قتل‘ کے خلاف تحریک التوا بھی جمع کروائی جا چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک یہ عظمائیں مالکان کا ظلم سہہ کر موت کو گلے لگاتی رہیں گی۔

اپنی امارت اور  با اختیار ہونے  کے نشے میں چُور ان ظالموں کو اتنی سنگین سزا دی جانی چاہیے کہ آئندہ کوئی اور مالکن کسی اور عظمیٰ کے ساتھ یہ ظلم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔

 یہ سچ ہے کہ  انصاف ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اسے ملنا چاہیے۔لیکن ملازمہ  اور انصاف ؟ ملازمہ انسان نہیں ہوتی، اسے مارنا جائز ہے تو پھر سوال صرف یہ ہے کہ انصاف کس سے لے کر کس کو دیا جائے؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔