ایک ماں، جو لاپتہ کشمیریوں کے لیے لڑ رہی ہے
2 دسمبر 2020نوے کی دہائی کے اوائل تک پروینہ آہنگر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی دیگر ماؤں کی طرح ایک عام سی ماں تھیں۔ پھر ایک دن بھارتی سکیورٹی فورسز نے ان کے سب سے بڑے بیٹے جاوید کو گھر سے اٹھا لیا۔ وہ اس وقت ایک ہائی اسکول کا طالب علم تھا اور پروینہ آج تک اپنے بیٹے کو دوبارہ نہیں دیکھ پائیں۔ جاوید آہنگر کا شمار ان ہزاروں کشمیری نوجوانوں میں ہوتا ہے، جنہیں سکیورٹی فورسز یا پھر نقاب پوش افراد نے اٹھایا اور پھر وہ دوبارہ کبھی اپنے گھروں میں قدم نہ رکھ سکے۔
اب تک بیسیوں خاندان لاعلم ہیں کہ ان کے رشتہ دار کدھر گئے؟ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ یہ لاپتہ افراد مبینہ طور پر سرحد عبور کرتے ہوئے پاکستان چلے گئے تاکہ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کے ساتھ مل سکیں۔ لیکن کشمیری خاندان اس حکومتی الزام کی تردید کرتے ہیں اور آج تک اپنے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پروینہ آہنگر بھی گزشتہ تیس برسوں سے اپنے بیٹے کی تلاش میں ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میں پولیس اسٹیشنوں میں گئی، میں نے آرمی کیمپوں کا سفر کیا، جنگلوں میں گئی، دیہات میں، ہر اس جگہ جہاں میں جا سکتی تھی۔ میں اپنے بیٹے کی تلاش میں ہر اس مقام پر گئی، جہاں جانے کا کبھی سوچا تک نہیں تھا۔ میں صبح سویرے بغیر کچھ کھائے گھر سے نکل پڑتی تھی۔‘‘
'موت سے زیادہ دردناک‘
پروینہ کی تکلیف، دکھ اور احساس نے انہیں ان والدین کے ساتھ رابطوں پر مجبور کیا، جن کے بچے بالکل اسی طرح لاپتہ ہو چکے ہیں اور آج تک واپس نہیں لوٹے، ''مجھے پتا چلا میں تنہا اپنے بچے کی تلاش میں نہیں ہوں۔ نوے کی دہائی کے آغاز پر اردو زبان میں شائع ہونے والے اخباروں میں اکثر لاپتہ بچوں سے متعلق اشتہارات دیکھنے کو ملتے تھے۔ میں ان اخبارات کے تراشے سنبھال کر رکھ لیتی تھی تاکہ متاثرہ والدین کے دیہات تک پہنچا جا سکے۔‘‘
اسی طرح دن گزرتے گئے اور لاپتہ نوجوانوں کے زیادہ سے زیادہ والدین پروینہ کے ساتھ شامل ہوتے گئے، یہاں تک کہ انہوں نے سن انیس سو چورانوے میں لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن آف پیرنٹس (اے پی ڈی پی) کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تقریباﹰ آٹھ ہزار کشمیری لاپتہ ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق، ''لاپتہ ہونے والے زیادہ تر افراد نوجوان ہیں لیکن ان میں کم عمر نوجوان بھی شامل ہیں۔ اسی طرح دیگر شعبوں کے ہر عمر کے افراد بھی شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا کبھی کسی مسلح اپوزیشن گروپ سے کوئی تعلق رہا ہی نہیں تھا۔‘‘
پروینہ آہنگر بتاتی ہیں، ''بہت سی مائیں تو اپنے بچوں کو تلاش کرتے کرتے خود اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ جبری گمشدگیاں موت سے زیادہ درد ناک ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر کوئی وفات پا جاتا ہے تو اسے قبر نصیب ہوتی ہے۔ اس کی فیملی جسم دیکھ سکتی ہے، چہرے کو چھو سکتی ہے، کم از کم آپ کے جذبات کو سکون ملتا ہے۔ لیکن جب آپ کے بچے کو اٹھا لیا جاتا ہے اور غائب کر دیا جاتا ہے تو پھر یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کرنا ہے۔ آپ آزرو اور امید کے درمیان بھٹکتے رہتے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہے، کیا کر رہا ہے یا اس کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ آپ صدمے سے دوچار ہو جاتے ہیں، اندر ہی اندر طوفان برپا ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
پروینہ کی زندگی کا مقصد اب دیگر خاندانوں کے بچوں کی تلاش میں تبدیل ہو چکا ہے، ''یہ خواتین، مائیں یا بیویاں، جنہوں نے اپنے بچوں یا شوہروں کو کھو دیا ہے، یہ اب میری فیملی ہیں۔ میں نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ اب میں ان کے لیے لڑوں گی۔ ہم متاثرین کا وہ خاندان ہیں، جنہیں اب بھی اپنے رشتہ داروں کا انتظار ہے۔‘‘
آخری سانسوں تک جدوجہد
پروینہ آہنگر کی جدوجہد ابھی تک ناکام ہی رہی ہے۔ سن دو ہزار سات تک وہ قانونی جنگ لڑتی رہیں لیکن انہیں انصاف نہ ملا۔ جبری گمشدگیوں کے ہزاروں کیس عدالتوں میں لٹکے ہوئے ہیں اور کسی کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ وہ بتاتی ہیں، ''قانونی نظام، عدلیہ اور کورٹس میرے جیسے متاثرین کو کوئی انصاف مہیا نہ کر سکے۔ ہم صرف اپنے بچوں کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ اس بات کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ کسی دوسرے کے ساتھ ایسا نہ ہو۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم حکومت سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے بچے کہاں غائب ہو گئے؟ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے مقدمات کی تحقیقات کریں۔‘‘
گزشتہ سال تک پروینہ اور دیگر متاثرین سری نگر کے عوامی پارک میں باقاعدگی سے جمع ہوتے تھے تاکہ گمشدگیوں کے حوالے سے احتجاج ریکارڈ کروایا جا سکے۔ لیکن اب کشمیر میں ایسا کوئی بھی اجتماع ناممکن سی بات لگتی ہے کیوں کہ مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی اور تب سے وہاں سخت لاک ڈاؤن ہے۔
بہت سے لیڈر اور سرکردہ شخصیات گھروں میں نظر بند ہیں۔ بعد میں کورونا کی وبا پھیلی اور ہر چیز جہاں تھی، وہیں تھم گئی۔ اکتوبر میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے پروینہ کے دفتر پر چھاپہ مارتے ہوئے ان پر علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کا الزام عائد کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود پروینہ آہنگر کہتی ہیں کہ وہ جب تک زندہ ہیں، لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی، ''مجھے اب کسی چیز کا خوف نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کا دباؤ میرے سفر میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔‘‘
پروینہ آہنگر کو سن دو ہزار سات میں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا اور سن دو ہزار سترہ میں انہیں انسانی حقوق کے رافتو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
رفعت فرید / ا ا / م م