1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ای لرنِنگ کے ذریعے کروڑوں نوجوانوں کو ڈاکٹر بنایا جا سکتا ہے

امتیاز احمد12 جنوری 2015

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ ای لرنِنگ کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کے لاکھوں طالبعلموں کو ڈاکٹری اور نرسنگ کی تربیت فراہم کی جا سکتی ہے اور یہ طریقہ ء تربیت روایتی ٹریننگ کی طرح موثر ثابت ہوسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EJ4Z
E-Learning-Zentrum vom VDR in Dschibuti eröffnet
تصویر: Christof Alexander Schwaner_VDR

پہلے تو صرف اوپن یونیورسٹیاں ہوتی تھیں لیکن اب ورچوئیل سیمینار ہال اور ڈیجیٹل کلاس روم کی مدد سے دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے۔ اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 72 لاکھ ہیلتھ ورکرز کی کمی ہے۔ ایمپریل کالج لندن کے ایک جائزے کے مطابق یہ کمی ای لرنِنگ کے ذریعے پوری کی جا سکتی ہے۔ ایمپریل کالج لندن کی طرف سے یہ رپورٹ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے لیے تیار کی گئی ہے۔

اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ جوزپ کار کا کہنا ہے کہ ای لرنِنگ یعنی الیکٹرانک میڈیا اینڈ ڈیواسز کا پہلے ہی تعلیم میں استعمال ہو رہا ہے اور پہلے ہی دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیاں اس کا استعمال کرتے ہوئے ’فاصلاتی تعلیم‘ کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب غریب ملکوں میں یہی طریقہ استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے تربیت فراہم کی جا سکتی ہے اور پسماندہ ملکوں کو ایسے طِبّی عملے کی خاصی ضرورت بھی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا نہ ہونا ہے اور یہ رکاوٹ بھی آسانی سے دور کی جا سکتی ہے۔ ریسرچر ڈاکٹر کار کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پہلے سے موجود 108 تحقیقات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس جائزے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ای لرنِنگ صحت کے میدان میں پیشہ وارانہ تربیت فراہم کرنے کے سلسلے میں کس قدر مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔

Bildergalerie Neue Persische Wörter
تصویر: Mathias Rosenthal - Fotolia

ایک علیحدہ تحقیقی جائزے میں اس موضوع پر بھی تحقیق کی گئی ہے کہ آن لائن لرنِنگ اور آف لائن لرنِنگ کو کس طرح مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔ آن لائن لرنِنگ کے لیے انٹرنیٹ کنیکشنز فراہم کیے گئے جبکہ آف لائن لرنِنگ کے لیے سی ڈی رومز ۔ یو ایس بی اسٹکس وغیرہ فراہم کی گئیں تھیں۔

اس تحیقق کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ دونوں طریقوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلموں کی کارکردگی اُن طالبعلموں سے بہتر تھی، جو روایتی طریقے سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

جرمنی کے شہر کولون میں اسی حوالے سے ایک تجرباتی منصوبہ جاری ہے، جسے ’میڈیا کونسیپٹ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ ریمُنڈ ہُک اِس پروجیکٹ سے منسلک ہیں اور اسکولوں میں میڈیاکو بطور مضمون پڑھاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ طلبہ کو یہ سہولت حاصل ہوگی کہ وہ اپنے لیپ ٹاپ پر ہی اپنے سبجیکٹس کی تیاری کر سکیں گے۔ اس حوالے سے سوفٹ ویئر ان کے پاس ہو گا، جوان کی ہوم ورک کرنے اور دیگر کاموں میں مدد دے گا۔ وہ پاور پوائنٹ کے ساتھ کلاس میں اپنی پریسنٹیشن دے سکیں گے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ای لرنِنگ کے دوران پیدا ہونے والے مسائل کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہُک کے مطابق طلبا کو بھی معلوم ہونا چاہیے، کس روز مرہ زندگی میں ایسے علوم سےکام لیا جا سکتا ہے اور وہ وٹ بک کو ایسی جگہ استعمال کریں جہاں اس کی ضرورت ہو۔

شہر کولون کے ایک اسکول میں گیارہویں کلاس کے طالب علم مارٹن کا کہنا ہے مستقبل میں اسکولوں کا منظر کچھ اور ہی ہوگا۔ ان کے خیال میں مستقبل میں اسکولوں میں کتابوں، بلیک بورڈ، اور لکھنے کے لئے کاپیوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ہر طالب علم کے پاس اپنا لیپ ٹاپ ہو گا۔ اس کے علاوہ ہر طالب علم کی گھر جانے کے بعد بھی اسکول میں پڑھایا جانے والے تمام مواد تک رسائی ہوگی۔