اے ایف ڈی سماجی تقسیم اور تعصب کو فروغ دے رہی ہے، میرکل
6 مارچ 2016انگیلا میرکل نے یہ بات جرمنی کے کثیر الاشاعت اخبار بلڈ ميں آج اتوار چھ مارچ کو چھپنے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی میرکل کی مہاجرین دوست پالیسی پر شدید تنقید کرتی رہی ہے اور داخلی سطح پر اس کی مقبولیت میں بھی مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر واپس ترکی بھیجنے کی کوشش
یورپ میں پناہ کے متلاشیوں میں اڑتالیس ہزار پاکستانی بھی
انگیلا میرکل کی جانب سے اے ایف ڈی پر تنقید کرنے سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جرمنی کی بڑی سیاسی جماعتیں اے ایف ڈی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہیں۔ جرمنی میں تیرہ مارچ کو علاقائی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ میرکل اور ان کی جماعت کو اس مرتبہ شدید مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اے ایف ڈی کو جرمن وفاقی ریاست سیکسنی ان ہالٹ میں بیس فیصد کے قریب ووٹ حاصل ہوں گے جب کہ جنوب مشرقی صوبے باڈن ورٹمبرگ میں وہ حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ برابر کے مقابلے پر دیکھی جا رہی ہے۔ جرمنی میں گزشتہ برس گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن کی آمد کے بعد جرمنی میں ہونے والے یہ پہلے بلدیاتی انتخابات ہیں۔
میرکل کا کہنا تھا، ’’اے ایف ڈی ایک ایسی پارٹی ہے جو معاشرے میں اتحاد پیدا کرنے اور بحران کا کوئی قابل عمل حل پیش کرنے کے بجائے سماجی تقسیم اور تعصب کو فروغ دے رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ جرمن حکومتی اہلکاروں اور مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو عوامی سطح پر اے ایف ڈی کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی پناہ گزین دشمن پالیسیوں کو رد کرنا چاہیے۔
جرمن چانسلر نے پناہ گزینوں کی مسلسل آمد کے باوجود ملکی سرحدیں بند نہ کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع بھی کیا۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی سطح پر حل ڈھونڈنے کی کوششیں جاری رکھیں گی۔ میرکل کی رائے میں اس بحران کا حل یورپ کی اندرونی سرحدیں بند کرنے کے بجائے بیرونی سرحدوں کے تحفظ میں پوشیدہ ہے جس کے لیے ترکی کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک کو اس مشکل گھڑی میں یونان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ آسٹریا اور مقدونیہ کی جانب سے سرحدوں کی بندش کے بعد لاکھوں تارکین وطن یونان میں محصور ہو چکے ہیں۔ برلن حکومت نے آسٹریا کے فیصلے کو کھلے عام تنقید کا نشانہ تو بنایا ہے لیکن اس کی وجہ سے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں بھی نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔