اے ایف ڈی مہاجرین مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں
17 اگست 2017حیران کُن بات یہ ہے کہ اس ریاست میں جرمنی کی دیگر تمام ریاستوں کے مقابلے میں مہاجرین کی سب سے کم تعداد موجود ہے۔ اس کے باوجود اے ایف ڈی کی مقبولیت کی آخر کیا وجہ ہے؟
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی ماضی قریب میں مقبولیت کے مزے اڑا چکی ہے۔ گزشتہ برس یہ جرمنی کی آٹھ ریاستوں کی اسمبلیوں میں جگہ پانے میں کامیاب ہو گئی تھی اور دو ریاستوں میں تو 20 فیصد سے بھی زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ تاہم اب اس جماعت کی مقبولیت زوال پذیر ہے اور جرمنی میں 24 ستمبر کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل کرائے جانے والے انتخابی جائزوں کے مطابق اس جماعت کی مقبولیت کی شرح سات سے آٹھ فیصد تک رہ گئی ہے۔
حالیہ جائزوں کے نتائج کے مطابق اے ایف ڈی بتدریج محض ایک مسئلے تک خود کو محدود کرتی جا رہی ہے اور وہ ہے کہ جرمنی میں مہاجرین کی آمد کے سبب لوگوں میں پیدا ہونے والے غم و غصے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ جن ریاستوں میں مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے وہاں اے ایف ڈی کو سپورٹ کرنے والوں کی تعداد ہونی چاہیے، مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ میلکن بُرگ ویسٹ پومیرانیا میں جرمنی کی 16 ریاستوں میں سے سب سے کم تعداد میں مہاجرین آباد ہیں۔ مگر ایک حالیہ سروے کے مطابق اس ریاست میں اے ایف ڈی کی مقبولیت کی شرح 20.5 فیصد ہے۔ اس شمال مشرقی ریاست کی کُل آبادی 16 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یہ اکلوتی ریاست ہے جہاں رواں برس یعنی 2017ء میں اے ایف ڈی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
میکلن بُرگ ویسٹ پومیرانیا کی ریفیوجی کونسل کی سربراہ اُلریکے زیمان کاٹز کے بقول اس ریاست میں لوگوں کے دلوں میں مہاجرین کے حوالے سے جو خوف پايا جاتا ہے، اس کی ايک بڑی وجہ لوگوں کے مہاجرین کے ساتھ رابطوں یا ان سے ملاقاتوں کا نہ ہونا ہے۔ ’’انسان اس چیز سے خوف زدہ ہوتا ہے جسے وہ جانتا نہیں، اور جس چیز کا لوگوں کو علم نہیں وہ مہاجرین ہیں۔‘‘
زیمان کاٹز کے مطابق جرمنی کے شمال مشرقی حصوں میں جرمن لوگوں کا سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے ساتھ براہ راست رابطہ یا ملاقات نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ مہاجرین کو ایسی جگہوں پر رکھا گیا ہے جو عام آبادی سے ہٹ کر اور الگ تھلگ ہیں۔
میکلن بُرگ ویسٹ پومیرانیا کی ریفیوجی کونسل کی سربراہ اُلریکے زیمان کاٹز کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اے ایف ڈی ان کی ریاست کے عوام میں مہاجرین کے حوالے سے پائے جانے والے خوف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ اس صورتحال میں فی الحال کسی تبدیلی کا بھی کوئی امکان نہیں دیکھتیں۔