اے عورت تجھے سلام
28 مارچ 2017اپنے عمل اور کامیابی سے مشعل راہ بننے والی ان خواتین کو اگر فخر پاکستان کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اپنے ملک اور قوم کے لیے باعث فخر ان خواتین محدود تو ہرگز نہیں تاہم ان میں سے چند کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا ہے۔
بلقیس ایدھی
مادر پاکستان کے لقب سے جانی جانے والی بلقیس ایدھی، سماجی و رفاحی خدمات میں بے مثال سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے نمایاں ترین فلاحی کاموں میں سے ایک ان چاہے بچوں کی زندگی بچانے کے لیے شروع کیا جانے والا جھولا پراجیکٹ ہے۔ ان جھولوں میں ڈالے جانے والے بچوں کو ایدھی سینٹر میں پالا جاتا ہے۔ پھر ایسے بچوں کو بے اولاد والدین کو دینے کے کام کی نگرانی بھی بلقیس ایدھی کی ذمہ داری ہے۔ اب تک تقریباً سولہ ہزار لاوارث بچوں کو بے اولاد والدین کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کئی ہزار خواتین کو پناہ دینے، انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور کسی وجہ سے اپنے گھر سے ناراض ہو کر آنے والی خواتین کی ان کے خاندان کے ساتھ صلح کرا کے انہیں ان کے گھروں تک پہنچانے جیسے کام بھی بلقیس ایدھی انجام دیتی ہیں۔ پانچ دہائیوں سے فلاحی کاموں میں اپنی زندگی بسر کرنے والی بلقیس ایدھی کو ان کی خدمات کے صلے میں کئی ملکی اور غیر ملکی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
پروین راؤ
کراچی میں ’خدا کی بستی‘ نامی ایک پسماندہ علاقے میں پروین راؤ غریب گھرانوں کے بچوں کے لیے ایک اسکول چلاتی ہیں۔ علم کی شمع جلاتے اس اسکول میں بچے صرف ایک روپے کے عوض معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ’عملِ دانش‘ نام کا یہ اسکول بستی میں رہنے والے بچوں کو گزشتہ بیس برسوں سے نہ صرف زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے، بلکہ انہیں ہنر مند بنانے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔
نگہت داد
پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کی سرگرم کارکن اور وکیل نگہت داد گزشتہ برس پاکستان کی وہ واحد شخصیت رہیں، جنہیں سول آزادی کے شعبے میں خدمات کے نتیجے میں انتہائی معتبر ’اٹلانٹک کونسل ڈیجیٹل فریڈم ایوارڈ‘ سے نوازا گیا ہے۔ نگہت داد کا شمار پاکستان کے ان چند افراد میں بھی ہوتا ہے، جو ملک میں ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا غیر سرکاری ادارہ ’ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن‘ پاکستان میں بڑھتے سائبر کرائمز کی روک تھام اور ڈیجیٹل حقوق کی آگاہی فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔ خواتین کو آن لائن ہراساں کرنے کے خلاف بھی نگہت داد نہایت تحسین آمیز خدمات فراہم کر رہی ہیں۔
سیما عزیز
لاہور سے تعلق رکھنے والی سیما عزیز اپنی قائم کردہ کیئر فاؤنڈیشن کے ذریعے اس وقت ملک بھر میں سات سو دس سے زائد انگلش میڈیم اسکول چلا رہی ہیں۔ پنجاب کی صوبائی حکومت نے ان کی جدوجہد اور ان کے اسکولوں کے نتیجے دیکھتے ہوئے کئی سرکاری اسکولوں کا انتطام بھی انہیں سونپ دیا ہے۔ اس وقت دو لاکھ تیس ہزار سے زائد بچے ان اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ کیئر فاؤنڈیشن کے اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات میں سے کچھ ڈاکٹر اور انجینئر بن چکے ہیں۔ جبکہ بہت سے دیگر زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔
منیبہ مزاری
وہیل چیئر تک محدود منیبہ مزاری مصورہ ہونے کے ساتھ ساتھ مقررہ، گلوکارہ اور سماجی کارکن بھی ہیں۔ وہ وہیل چیئر تک محدود پاکستان کی پہلی ماڈل ہونے کے علاوہ ایک ایسے اسکول کے ساتھ بھی کام کر رہی ہیں، جو ضرورت مند بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔ معذوری کو اپنی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دینے والی منیبہ کا نام فوربز میگزین میں 30 سال سے کم عمر اہم ترین شخصیات کی فہرست میں بھی شامل رہ چکا ہے۔ اس کے علاوہ منیبہ وہ پہلی پاکستانی خاتون بھی ہیں جن کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین نے خیر سگالی کی سفیر مقرر کیا ہے۔ جبکہ ایک برطانوی نشریاتی ادارہ انہیں ان ایک سو خواتین کی فہرست میں شامل کر چکا ہے، جو اپنی ہمت اور لگن سے دوسروں کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہیں۔
عائشہ فاروق
عائشہ فاروق جنوبی ایشیا اور پاکستان کی وہ پہلی خاتون ہیں، جو لڑاکا پائلٹ بننے میں کامیاب رہی ہیں۔ بہاولپور سے تعلق رکھنے والی یہ پائلٹ ان انیس پاکستانی خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے گزشتہ دس سالوں میں پاکستان ایئر فورس سے تربیت حاصل کی۔ تاہم پہلی لڑاکا پائلٹ بننے کا اعزاز عائشہ کے حصے میں رہا۔
شرمین عبید چنائی
پاکستان کے لیے دستاویزی فلموں میں پہلا آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی شرمین عبید چنائے کا تعلق کراچی سے ہے۔ ان کی بنائی ہوئی دستاویزی فلمیں سی این این، سی بی سی، چینل فور، الجزیزہ اور ایج بی او جیسے بڑے ٹی وی چینلز پر دکھائی جاچکی ہیں۔ تیزاب پھینکے جانے سے متاثرہ دو خواتین کی جدوجہد پر مبنی ان کی بنائی ہوئی دستاویزی فلم، سیونگ فیس، کی گونج پاکستان کے ایوانوں تک بھی پہنچی جس کے سبب پارلیمنٹ نے خواتین پر تیزاب پھینکنے کو سنگین جرم قرار دیا اور اس کے حق میں ایک بل بھی پاس کیا۔ وہ پاکستان میں سٹیزنز آرکائیو آف پاکستان نامی ادارے کی بانی ہیں۔ یہ غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ ادارے کا کام بنیادی طور پر تاریخ پاکستان کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنانا ہے۔