اے پی ایس سانحہ، سپریم کورٹ کا باقاعدہ تحقیقات کا حکم
10 مئی 2018پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہلاک ہونے والے طلبا اور دیگر افراد کے لواحقین اس واقعے میں سکیورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کی ناکامی کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں اب تک کسی حکومتی یا فوجی ادارے کو سکیورٹی یقینی نہ بنانے پر احتساب کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جب کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشنز کے حوالے سے تنقید کو بھی ’سرخ لکیر‘ گردانا جاتا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل عبدالطیف یوسفزئی نے بتایا ہے کہ پشاور میں اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس حملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کمیشن دو ماہ کے اندر اپنی رپورٹ تیار کرے گا۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ججوں کی جانب سے اے پی ایس سانحے کی عدالتی تحقیقات کا فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب ملک میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نامی تحریک اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم دیگر تنظیموں نے آرمی پبلک اسکول میں پیش آنے والے اس واقعے کی تحقیقات کے معاملے کو اپنے مطالبات میں شامل کر رکھا ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ نے اتوار کے روز کراچی میں مظاہرے کا اعلان کر رکھا ہے جس میں بڑی تعداد میں پشتون افراد کی شرکت کی توقع ہے۔
اے پی ایس دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سراہا جب کہ کئی بچوں کے والدین آبدیدہ بھی دکھائی دیے۔ انجم خان، جن کا اکلوتا بیٹا اس واقعے میں ہلاک ہو گیا تھا، کا اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ یہ کمیشن لاپروائی کے مرتکب ہونے والے ذمہ داروں کا تعین کرے گا۔
دوسری جانب پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں سکیورٹی صورت حال بھی نمایاں طور پر بہتر ہوئی ہے۔ حکام کے مطابق آرمی پبلک اسکول حملے کا مبینہ منصوبہ ساز سن 2017 میں ایک ڈورن حملے میں مارا گیا تھا۔ اسلام آباد حکومت کے مطابق اسی حملے میں ملوث چار شدت پسندوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے، تاہم حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ سزائے موت پانے والے افراد کا سن 2014 کے دہشت گردانہ حملے میں کیا کردار تھا۔
ش ح / ا ا (اے ایف پی)