بائیسکل کی ایجاد اور اس کا دو سو سالہ سفر، چند دلچسپ حقائق
دو سو سال قبل ایک جرمن کارل فان ڈرائس نے دو پہیوں پر چلنے والی ایک ایسی مشین بنائی تھی، جو آگے چل کر آج کی بائیسکل کی بنیاد بنی۔ آج یہ ایجاد دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
ایک جرمن ایجاد
کارل فان ڈرائس نے دو پہیوں والی اپنی مشین سن 1817ء میں بنائی تھی۔ اُس نے ’ڈرائیسینے‘ کہلانے والی اس مشین کو ایک سے دوسری جگہ زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پہنچنے کے لیے استعمال کیا۔ تب پیڈل نہیں تھے اور دو پہیوں والی اس مشین کو آگے بڑھانے کے لیے سوار کو اپنے پاؤں سے زمین پیچھے کی جانب دھکیلنا پڑتی تھی۔ 1860ء کے عشرے میں فرانس میں ’ڈرائیسینے‘ کو زیادہ بہتر بنا کر بائیسکل کا نام دیا گیا۔
بائیسکل: آزادی کا احساس
اُنیس ویں صدی میں حقوقِ نسواں کی علمبردار امریکی خاتون سُوزن بی اینتھنی نے، جو ’خواتین کے حقوق کی نپولین‘ بھی کہلاتی تھیں، لکھا تھا: ’’میرے خیال میں دنیا میں خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے سفر میں کسی بھی اور چیز سے زیادہ بائیسکلنگ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ سواری خواتین کو آزادی اور خود اعتمادی کا احساس دیتی ہے۔‘‘
ایک اختراع سے مزید اختراعات
رائٹ برادران نے پہلا ہوائی جہاز تو بعد میں بنایا، پہلے اُن کی امریکی ریاست اوہائیو کے شہر ڈیٹن میں بائیسکل مرمت کرنے کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ یُوں اوروِل اور وِلبر رائٹ کو ایک اچھا روزگار بھی حاصل تھا اور معاشرے میں ایک باعزت مقام بھی لیکن یہ دکان اُن کے مکینیکل تجربات کے لیے بھی بہت اہم تھی۔ اسی ورکشاپ میں بننے والے رائٹ فلائر نے 1903ء میں زمین سے بلند ہو کر پہلی اڑان بھری تھی۔
چیمپئنز کی روایت کی بنیاد
1903ء ہی میں ’ٹُور ڈی فرانس‘ کی صورت میں پہلی سائیکل ریس شروع ہوئی۔ اب اس ریس کو دنیا بھر میں سب سے پرانی اور ممتاز سائیکل ریس کا درجہ حاصل ہے۔ ہر سال اس کا رُوٹ تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے قواعد و ضوابط ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں۔ اس شاندار ریس کا اختتام ہمیشہ فرانسیسی دارالحکومت پیرس کی مشہور شاہراہ شانز ایلی زے پر ہوتا ہے۔
دو پہیوں پر پوری دنیا کا سفر
فریڈ اے برکمور (1912ء تا 2012ء) ایتھنز (یونان) کا ایک مشہور مہم جُو تھا۔ اُس نے 1935ء میں بائیسکل پر پوری دنیا کا سفر کیا تھا اور یورپ، ایشیا اور امریکا میں مجموعی طور پر چالیس ہزار میل (پینسٹھ ہزار کلومیٹر) سے زیادہ سفر کیا تھا۔ ان میں سے پچیس ہزار میل برکمور نے خود بائیسکل چلائی، باقی کا پانیوں پر سفر کشتیوں کے ذریعے تھا۔ اس دوران اُن نے سات مرتبہ اپنی بائیسکل کے ٹائر بدلے۔
بائیسکلز کا عالمی صدر مقام
ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کو دنیا بھر میں بائیسکلز کا صدر مقام کہا جاتا ہے۔ یہاں مجموعی آبادی کا اندازاً 63 فیصد یعنی کوئی آٹھ لاکھ انسان روزانہ بائیسکل استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح اس شہر میں آمدورفت کے لیے بائیسکل کے استعمال کی شرح بتیس فیصد، کاروں کی شرح بائیس فیصد جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی شرح سولہ فیصد ہے۔ شہر کے مرکزی علاقے میں بائیسکل کے استعمال کی شرح اڑتالیس فیصد تک ہے۔
یورپ میں سائیکلنگ
یورپی بائیسکل انڈسٹری کی کنفیڈریشن نے 2016ء کے لیے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن کے مطابق براعظم یورپ میں ہر سال اکیس ملین بائیسکل یا برقی قوت سے چلنے والے بائیسکل فروخت ہوتے ہیں۔ ان میں سے تیرہ ملین وہ ہیں، جو اسی براعظم میں تیار ہوتے ہیں۔ بائیسکل تیار کرنے والی یورپی صنعت سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ستّر ہزار سے زیادہ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
ایک مسلسل ترقی کرتی صنعت
2015ء میں بائیسکل کی عالمی منڈی کے مالیاتی حجم کا اندازہ 45.1 ارب ڈالر (40.3 ارب یورو) لگایا گیا تھا۔ 2016ء سے لے کر 2024ء تک کے لیے اس صنعت میں نمو کی سالانہ شرح کا اندازہ 3.7 فیصد لگایا گیا تھا۔ اس حساب سے اس صنعت کا مالیاتی حجم اگلے عشرے کے وسط تک 62.4 ارب ڈالر تک پہنچتا نظر آ رہا ہے۔