بائیو ڈائیورسٹی کا عالمی دِن
21 مئی 2008کہا جاتا ہے کہ انسانی ترقی کا ماضی زراعت میں ہل کے استعمال سے جڑا ہے اوروہ زمین پر پہلا زرعی انقلاب تصور کیا جاتا ہے۔ تب سے زمین پر کثیر اُلجہتی ماحولیاتی نظام کی سب سےبڑی سرگرمی تصور کی جاتی ہے جس کے منفی اور مثبت اثرات بے شمار ہیں۔
اِسی اہمیت کے تناظر میں اِس سال کا موضوع حیاتیاتی تنوع اورزراعت رکھا گیا ہے۔ اِس مناسبت سے ماہرین کا خیال ہے کہ پائیدار زراعت ماحولیاتی نظام کے لیئے بہت ضروری ہے کیونکہ اکیسویں صدی کےعالمی منظر نامے پر بھُوک افزائش پا رہی ہے اورگرم ہوتا ماحول زمین کی حیات کے لیئے پریشانیاں پیدا کر رہا ہے ایسے میں مُستحکم زراعت ہی حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کے ساتھ ساتھ زمین کے باسیّوں کی بھُوک ختم کرنے اور خوراک کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے۔
زراعت انسان کو خوراک کےعلاوہ پہننے کے لیئے کپڑا جو کپاس سےحاصل کیا جاتا ہے اور موسموں کے تغیّر و تبّدل میں پناہ جو درخت سے حاصل ہوتی ہے مہیا کرتا ہے۔ کئی ملکوں میں ادویات کی تیاری میں جنگلی جڑی بُوٹیوں ، اب تجارتی بنیادوں پر ایسی جنگلی جڑی بُوٹیوں اور دوسرے پودوں کی باقاعدہ کاشت شامل ہے جو ایک اورزرعی شعبہ ہے۔
سب سے بڑھ کر زراعت انسان کے لیئے کمائی کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے جس سے وہ ضروریات زندگی کے بےبہا اشیاء خرید سکتا ہے۔
اِس وقت زمین کے کُل رقبے کا پچیس فی صد حصہ انسانی کاشت کاری کے دائرے میں ہے۔ زرعتی عمل میں انسان فصلوں اور پودوں کی تقریباً سات ہزار مختلف اقسام کی کاشت کرتا ہے اور اِس مقصد کے لیئے جدید ٹکنالوجی کےعلاوہ تیس تا چالیس جانور بھی اُس کے استعمال میں ہیں ۔
سن دو ہزار آٹھ کو آلُو کی کاشت کا سال بھی قرار دیا گیا ہے اور ایسے میں جب گندم اور چاول کی قیمتیں مسلسل اضافے میں ہیں تو حیاتیاتی تنوع کےعالمی دِن کےموقع پر آلُو کی کاشت اور بھی اہم دکھائی دیتی ہے۔ زرعتی شعبے میں اضافے سے ہی انسان ، انسانوں کے بھوک اور ناقص خوراک کے مسائل کوکم کرنے میں معاونت کر سکتا ہے۔
اِس حوالے سے اِس سال فروری میں خوراک اور زرعی ماہرین نے مل کر مستقبل میں خوراک کی ترجیحات کو ازسرِ نو ترتیب دیا تھا اور اِس میں ماحولیاتی مسائل، حیاتیاتی تنوع، معاملاتِ خوراک میں استحکام، مستقبل میں اشیاےٴ خوردونوش کی قیمتوں پر کنٹرول اور متبادل اشیاےٴ خوراک کو احاطہٴ کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔