بائیڈن اور مودی میں کن امور پر بات چيت کا امکان ہے؟
11 اپریل 2022نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے اتوار کی شام اعلان کیا کہ پیر کے روز امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان آن لائن بات چیت ہو گی۔ وائٹ ہاؤس نے بھی اس ورچوئل ملاقات کی یہ کہتے ہوئے تصدیق کی کہ دونوں رہنما کئی اہم مامور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت ایک ایسے وقت ہو رہی ہے، جب بھارت اور امریکہ کے درمیان وزارتی سطح کے ٹو پلس ٹو ڈائیلاگ کا چوتھا مرحلہ ہونے کو ہے۔ اس کے لیے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر واشنگٹن پہنچے ہیں، جو اپنے امریکی ہم منصب، سکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے مذاکرات کرنے والے ہیں۔
نئی دہلی نے کیا کہا؟
بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا،’’دونوں رہنما آپس میں جاری دو طرفہ تعاون کا جائزہ لیں گے اور جنوبی ایشیا، ہند۔بحرالکاہل خطے سمیت باہمی دلچسپی کے عالمی مسائل پر ہونے والی حالیہ پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ ورچوئل میٹنگ فریقوں کو اپنے باضابطہ اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کو جاری رکھنے کے مزید قابل بنائے گی، جس کا مقصد "دو طرفہ جامع اسٹریٹیجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنانا ہے۔"
یوکرین کے خلاف روسی حملے سے عالمی سطح پر جو نئے حالات پیدا ہوئے ہیں، اس تناظر میں اعلیٰ ترین سیاسی سطح پر ہونے والی اس بات بات چیت کو کافی اہمیت دی جا رہی ہے۔ بھارت نے اس سلسلے میں اب تک اپنا جو سفارتی موقف اپنایا ہے اس پر امریکہ ناراضی کا اظہار کرتا رہا ہے۔
تاہم نئی دہلی میں بعض مبصرین یہ کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان ہونے والی نجی بات چيت میں ایسی کوئی تلخی نہیں ہے اور وہ دونوں ہر سطح پر اپنے تعلقات مزید بہتر کرنے کی سمت میں گامزن ہیں۔
یوکرین کی صورت حال پر بات ہو گی
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اس بات چیت کے دوران، "یوکرین کے خلاف روسی جنگ کے نتائج اور عالمی خوراک اور اجناس کی منڈیوں پر پڑنے والے اس کے غیر مستحکم اثرات کو کم کرنے کے بارے میں قریبی مشاورت جاری رکھیں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ جن امور پر وہ تبادلہ خیال کریں گے، ان میں کووڈ 19 کا خاتمہ، موسمیاتی بحران کا مقابلہ کرنا، "عالمی معیشت کو مضبوط بنانا، اور سکیورٹی و جمہوریت کو تقویت دینے کے لیے آزاد اور کھلے قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظم کو برقرار رکھنے نیز انڈو پیسیفک خطے میں خوشحالی کو برقرار رکھنے جیسے امور شامل ہیں۔"
ہند بحرالکاہل میں "سکیورٹی، جمہوریت اور خوشحالی" کا حوالہ دراصل انڈو پیسیفک علاقے میں چین کی سرگرمیوں کی جانب ایک اشارہ ہے۔ جین ساکی کا کہنا تھا کہ دونوں رہنما انڈو پیسیفک خطے میں ایک اکنومک فریم ورک کی ترقی اور اعلیٰ معیار کے انفراسٹرکچر کی فراہمی کے بارے میں جاری بات چیت کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
یوکرین پر حملے کے سبب امریکہ اور اس کے دیگر مغربی اتحادیوں نے روس پر پابندیاں عائد کی ہیں، تاہم فی الحال ایسے کوئی اشارے نہیں ہیں کہ بھارت روس کے ساتھ اپنے تجارتی اور اسٹریٹیجک تعلقات میں کسی طرح کی کوئی کمی کرے گا۔ اس نے حال ہی میں ماسکو کے ساتھ کئی بڑے معاہدے کیے ہیں اور روس سے سستے داموں پر تیل بھی خرید رہا ہے۔
روس کے حوالے سے امریکہ بھارت کے اس رویے سے بہت خوش نہیں ہے اور اسی لیے وہ اپنی تشویش کا اظہار بھی کرتا رہا ہے۔ چند روز پہلے ہی کی بات ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ کواڈ ملکوں میں بھارت ہی ہے، جو روس کے خلاف متزلزل نظر آتا ہے جبکہ باقی ارکان نے ثابت قدمی سے کام لیا ہے۔
تاہم نئی دہلی میں مبصرین کہتے ہیں کہ اس طرح کے امریکی بیانات اور بعض تنبیہات دراصل عوام کو دکھانے کے لیے ہیں اور نجی بات چيت میں اس طرح کی کوئی تلخی نہیں ہے۔ ان کے مطابق چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر قابو پانے کے لیے امریکہ کو نئی دہلی کی حمایت درکار ہے، اسی لیے وہ ان تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرکے خطے میں اس کے ساتھ دفاعی تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔
دوسری طرف بھارت کا دیرینہ موقف یہ رہا ہے کہ اس کے روس اور امریکہ دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔