باجوڑ اور مومند میں پناہ گزینوں کی رضا کارانہ واپسی
20 اپریل 2010باجوڑایجنسی کے متاثرین25 جبکہ مومندایجنسی کے رہائشی30 اپریل کو اپنے گھر روانہ ہوں گےان کی واپسی کے لئے اقوام متحدہ کا ادارہ یواین ایچ سی آر اورسپیشل سپورٹ گروپ سمیت فاٹا ڈائزسٹر مینجمنٹ انہیں خوراک اورعارضی شیلٹر فراہم کریں گے۔ اس مقصد کے لئے باجوڑ ایجنسی کے شہر خار اورعنایت کلے جبکہ مومندایجنسی کے یکہ غونڈ اورغلنئی میں امدادی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوردان مومندایجنسی سے ساڑھے پانچ ہزارخاندان نقل مکانی کرکے پلوسہ ، بے نظیر اور جلوزئی کیمپ منتقل ہوئے تھے جبکہ باجوڑ ایجنسی سے مجموعی طورپر 27 ہزار خاندانوں نے نقل مکانی کی تھی، جس میں حکام کے مطابق 16000خاندان رضا کارانہ طورپر اپنے گھر واپس جاچکے ہیں جبکہ 11ہزاراب بھی کیمپوں میں مقیم ہیں ۔ فاٹا کے سیکرٹری سیکورٹی طارق حیات خان کاکہناہے:” آپریشن کے دوران سینکڑوں افراد گرفتار ہوئے ہیں اورمقامی جرگہ کی وساطت سے کئی لوگوں نے اسلحہ رکھا ہے ان لوگوں کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہے اورانہیں قانون کے مطابق سزا دی جائےگی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ رضا کارانہ طورپر واپس جانے والوں کی بھرپور مدد کی جائے گی۔
طارق حیات خان کاکہنا ہے :’’ جب تک لوگ اپنی آنکھوں سے حالات نہیں دیکھتے انہیں تسلی نہیں ہوگی ہم انہیں یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ جاکر دیکھ لیں کہ حالات میں تبدیلی آئی ہے ہم زبردستی نہیں کریں گے بلکہ یہ رضا کارانہ واپسی ہے جو لوگ واپس جائیں گے ان کے لیے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے گی جبکہ باجوڑ اورمومندایجنسی میں دو ، دو مقامات پر مراکز قائم کیے گئے جہاں سے انہیں خوراک اورشیلٹر سمیت دیگر امداد دی فراہم کی جائے گی، کچھ لوگ واپس جائیں گے تو دوسروں کو ضرورمطلع کریں گے کہ آئیں حالات ٹھیک ہیں زراعت میں بھی سپورٹ کریں گے لیکن جب تک یہ لوگ نہیں جائیں گے، کھیتوں میں ہل نہیں چلائیں گے تو زراعت میں مدد کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘
اگرچہ حکومت نے باجوڑ اورمومندایجنسی کے 53 دیہاتوں کو صاف اورپرامن قراردیاہے تاہم اس کے باوجود متاثرین کی ایک بڑی تعداد فی الحال جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب بھی افغانستان کے صوبہ کونٹر سے عسکریت پسندوں کی معاونت کی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب انتظامیہ خود بھی بعض علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے اشارے دیتی ہے۔
طارق حیات خان کہتے ہیں :’’باجوڑ ایجنسی کا لوئے سم کے ایک چھوٹے علاقے کے علاوہ باقی تمام علاقے کلیئر کئے گئے ہیں مومند ایجنسی کونہ ہم نے پہلے جنگ زدہ ڈکلیئر کیانہ ابھی، لوگوں نے خود وہاں خطرہ محسوس کیا اورنکل آئے مومند سے ساڑھے پانچ ہزار لوگ آئے جبکہ اس کے مقابلے میں باجوڑ ایجنسی سے 27 ہزار خاندان یہاں آئے اس سے دونوں علاقوں میں دہشت گردی کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اگردیکھاجائے تو اکا دکا واقعات تو لاہور اوراسلام آباد میں بھی ہوتے ہیں لیکن یہ تو پھر بھی قبائلی علاقے ہیں یہ لوگ اپنے رواج کے تحت زندگی گزارتے ہیں، جس میں بندوق رکھنا بھی شامل ہیں اورجس کے کندھے پر بندوق ہو وہ آسانی سے بات چیت نہیں کرے گا۔ یقینا یہ لوگ جائیں گے اوراپنے علاقے کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اورسب دیکھیں گے کہ حکومت کس طرح اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے“۔
باجوڑایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف اگست 2008ء میں فوجی آپریشن شروع کیاگیا تھا۔ اِس دوران ہزاروں خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں۔ انتظامیہ کے ساتھ باجوڑ کے 27 ہزار خاندانوں نے رجسٹریشن کروائی جبکہ ایک بڑی تعداد نے شہروں میں رہائش اختیار کررکھی ہے۔ متاثرین کی رضا کارانہ واپسی کے بعد کیمپوں میں جاری امدادی سرگرمیاں ختم کی دہ جائیں گی۔ انتظامیہ کاکہنا ہے کہ بہ یک وقت ایجنسی اورکیمپوں میں امداد فراہم کرنا حکومت کے بس سے باہر ہے ۔
رپورٹ فریداللہ خان، پشاور
ادارت: عاطف بلوچ