بارش نے لاہور پر ہونے والا سموگ حملہ پسپا کر دیا
7 نومبر 2019پنجاب میں سموگ پر قابو پانے کے لیے شہریوں کے تعاون کے حصول کی خاطر بڑے پیمانے پر آگاہی مہم بھی شروع کر دی گئی ہے، جبکہ اس ضمن میں حکومتی مشینری کو فعال بنانے کے لیے کچھ طالب علم عدالتی دروازہ بھی کھٹکھٹا رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کو مسلسل پانچویں سال بھی سموگ کے شدید مسئلے کا سامنا ہے۔ گزشتہ رات فضا میں آلودگی میں خطرناک حد تک اضافے کے بعد حکومت کی طرف سے ہائی الرٹ کا اعلان کرتے ہوئے شہر کے تمام سرکاری اور نجی اسکولوں کو بند کر دیا گیا تھا۔
لاھور میں ائیر کوالٹی کنٹرول انڈکس، جو دو سو سے بھی کم سطح پر تھا، پانچ سو سے بھی اوپر چلا گیا تھا۔ اس صورت حال میں 'لاہور سموگ‘ ٹویٹر پر ٹاپ ٹڑینڈ بن گیا اور لوگ سانس اور آنکھوں کی تکالیف کی شکایات رپورٹ کرتے رہے۔ ماہرین صحت نے سموگ کی شدت کے پیش نظرشہریوں کو بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلنے، حفاظتی ماسک پہننے اور پانی زیادہ پینے کا مشورہ دیا تھا۔
نئی دہلی میں اسموگ سے شہریوں کی ’زندگیاں مختصر ہوتی ہوئی‘
پنجاب میں ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے ترجمان نسیم الرحمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سموگ کی وجہ سرحد پار انڈیا میں کسانوں کی جانب سے دھان کی فصل کی باقیات کا نذرِ آتش کیا جانا ہے۔ ان کے مطابق، ''ہوا کا رخ پاکستان کی طرف ہونے سے پاکستانی حدود میں فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا، تاہم اب ہوا کا رخ بدلنے اور بارش ہو جانے کی وجہ سے صورت حال بہت بہتر ہو گئی ہے۔‘‘
ترجمان کے مطابق پنجاب حکومت پہلے ہی سموگ پر قابو پانے کے لیے ایک خصوصی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور آلودگی کا باعث بننے والی گاڑیوں، فیکٹریوں اور اینٹوں کے بھٹوں کی ٹیکنالوجی کو تبدیل کرایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''اس وقت ٹرانسپورٹ، زراعت، اور صنعت سمیت چودہ سرکاری محکمے ایسے ہیں جو سموگ ایکشن پلان کے تحت کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم تو فصلوں کی باقیات کو نذر آتش کرنے والے پاکستانی کسانوں کے خلاف بھی پرچے کٹوا رہے ہیں لیکن بھارت کی طرف سے اس طرح کے اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ہمیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
ایک بڑے انگریزی اخبار کے کے لیے سالہا سال سے ماحولیات کے امور رپورٹ کرنے والے صحافی علی رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ ہوا کے رخ کی تبدیلی کی وجہ سے بھارت کی طرف سے آنے والی آلودگی ہی سموگ کے تازہ حملے کا باعث بنی اور اب موسم بہتر ہونے سے فضا بھی بہتر ہو گئی ہے لیکن ان کے بقول یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے ہمارے ہاں سب اچھا نہیں ہے۔
لاہور کے شہری اتنی تیزی سے بیماریوں کا شکار کیوں؟
علی رضا کے مطابق، ''اس واقعے کو ایک'ویک اپ کال ‘ سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے ماحول کی بہتری کے لیے اسی شدت سے کام کرنا چاہیے، جس شدت سے ہم نے پچھلے بارہ گھنٹوں میں سرکاری پھرتیاں دیکھی ہیں۔‘‘
علی رضا کے بقول آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے لاہور میں آلودگی کے مسائل بڑھ رہے ہیں، اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اربن پلاننگ کے تحت نئے شہر آباد کیے جائیں اور دیہات سے شہروں کی طرف آبادی کے منتقل ہونے کو روکا جائے۔ انہوں نے کہا، ''اصل پریشانی یہ ہے کہ ایک تو ماحولیاتی تبدیلیاں اور ماحولیات کے مسائل ہمارے مقتدر حلقوں کی ترجیحات میں بہت ہی پیچھے ہیں اور دوسرا ہمارے وسائل بھی کم بھی ہیں اور جو ہیں وہ ادھر ادھر خرچ ہو جاتے ہیں۔‘‘
ایک طالبہ ایمن زاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دیانت داری کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ماحولیاتی آلودگی کی پریشانی کا اصل احساس ہی اس واقعے کے دوران ہوا ہے۔ ہم سب کو مل کر ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہیے اور بھارت کے ساتھ بھی اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے۔‘‘