1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باسٹھ امیر ترین افراد دنیا کی نصف دولت کے مالک ہیں

عابد حسین18 جنوری 2016

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل دولت کا تقریباً نصف حصہ صرف باسٹھ افراد کی ملکیت ہے۔ اوکسفیم کی اس رپورٹ کے مطابق امیر لوگ مزید دولت مند اور غریب مسلسل غریب تر ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HfEU
تصویر: picture alliance/JOKER/A. Stein

سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈاووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے آغاز سے قبل بین الاقوامی امدادی تنظیم اوکسفیم نے دنیا میں پائی جانے والی مالیاتی عدم مساوات اور امیر اور غریب کے درمیان پیدا خلیج پر مبنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل 3.5 بلین آبادی کے پاس اُتنی دولت نہیں ہے، جتنی اِسی زمین کے باسٹھ افراد کے پاس ہے۔ اوکسفیم نے اپنی رپورٹ میں ان افراد کو انتہائی امیر کبیر یا super-rich قرار دیا ہے۔

انتہائی امیرکبیر افراد میں سے تقریباً نصف کا تعلق امریکا سے ہے جبکہ سترہ ایسے سُپر رِچ یورپی براعظم میں رہتے ہیں۔ بقیہ افراد چین، برازیل، میکسیکو، جاپان اور سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سن 2010 کے بعد دنیا کے امیر کبیر افراد کی دولت میں چوالیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب دنیا بھر کی کل آبادی کی غربت میں اکتالیس فیصد بڑھی ہے۔

اوکسفیم انٹرنیشنل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر وِنی بائنیما کے مطابق اِس مالیاتی تفریق کے تناظر میں عالمی لیڈروں میں پائی جانے والی تشویش صرف زبانی کلامی ہے اور اِس مناسبت سے ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کبھی بھی اتنی عدم مساوات کی شکار نہیں تھی اور اِس رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی بین الاقوامی ادارے پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ دنیا میں خطِ غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔

Forbes Magazin
دنیا کی کل دولت کا تقریباً نصف حصہ صرف باسٹھ افراد کی ملکیت ہے۔تصویر: Peter Parks/AFP/Getty Images

امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر گبریل زوکمین کا کہنا ہے اِس وقت دنیا کے کئی امیر اشخاص کی ذاتی ملکیت میں تقریباً 7.6 ٹریلین ڈالر ہیں اور اِس دولت کو ٹیکس سے چھپا کر غیر معروف بینکوں میں رکھا گیا ہے۔ زوکمین کے مطابق اگر اِس دولت پر ٹیکس ادا کر دیا جائے تو یہ 190 بلین ڈالر بنتا ہے اور یہ دنیا کے کئی ملکوں کی اقتصادیات کے لیے بہت بڑا سہارا بن سکتا ہے۔ اسی طرح افریقہ کی مجموعی دولت کا تیس فیصد افریقی دولتمندوں نے دوسرے ملکوں میں جمع کروا رکھا ہے، یہ لوگ اگر اِس دولت پر صرف جائز ٹیکس ہی ادا کر دیں تو چودہ بلین ڈالر حاصل ہو گا اور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ براعظم افریقہ کے چالیس لاکھ بچوں کی زندگیاں سالانہ بنیاد پر بچائی جا سکتی ہیں۔