1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باغیوں نے یوکرائن کا جنگی طیارہ مار گرایا

مقبول ملک30 اگست 2014

یوکرائن کی سرکاری افواج کے مطابق ملک کے مشرقی حصے میں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند باغیوں نے ایک میزائل حملے میں یوکرائنی فضائیہ کا ایک جنگی طیارہ مار گرایا ہے۔ اس حملے میں طیارے کا پائلٹ اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا۔

https://p.dw.com/p/1D3zx
تصویر: Reuters

یوکرائن کے دارالحکومت کییف سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق ملکی فضائیہ کے اس فائٹر طیارے کی تباہی کی تصدیق مشرقی یوکرائن میں روس نواز باغیوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے فیس بک پر بنائے گئے پیج پر آج ہفتے کے روز کی گئی۔

یوکرائنی فورسز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس طیارے کو باغیوں نے ایک روسی ساختہ میزائل کے ساتھ جمعے کے روز نشانہ بنایا جبکہ اس Su-25 جنگی ہوائی جہاز کا پائلٹ ایمرجنسی سیٹ کے ذریعے طیارے سے بروقت نکلنے میں کامیاب رہا۔ اس بیان میں مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر صرف اتنا ہی کہا گیا ہے کہ طیارے کو جس میزائل سے نشانہ بنایا گیا، وہ ایک روسی لانچر سے فائر کیا گیا تھا۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے خیال میں اس وقت مشرقی یوکرائن میں روس کے کم از کم ایک ہزار فوجی موجود ہیں جبکہ کییف حکومت کی طرف سے اسی ہفتے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ علیحدگی پسند باغیوں نے بحیرہء آذوف کے ساحل کے ساتھ ساتھ حال ہی میں جو نیا جنگی محاذ کھولنے کی کوشش کی، اس سے قبل بہت سے روسی ٹینک اور بکتر بند فوجی گاڑیاں سرحد پار کر کے مشرقی یوکرائن میں داخل ہو گئے تھے۔

Ukraine Konflikt Separatisten bei Kriegerdenkmal in Savur Mohyla bei Donesk
ڈونیٹسک کے نواح میں ایک جنگی یادگار اور روس نواز علیحدگی پسند باغیتصویر: Reuters

یوکرائن کے پھیلتی ہوئی خانہ جنگی بنتے جا رہے خونریز تنازعے میں اس ہفتے کے شروع تک کییف حکومت کے فوجی دستوں اور روس نواز باغیوں کے مابین لڑائی زیادہ تر چاروں طرف سے خشکی میں گھرے علاقوں میں ہو رہی تھی۔ لیکن پھر باغیوں نے مغرب کی طرف بڑھتے ہوئے شہر نوووآذوفسک پر قبضہ کر لیا۔ اس عسکری پیش قدمی کا مقصد بظاہر یہ کوشش ہے کہ باغی مغرب کی طرف بڑھتے ہوئے بحیرہء آذوف کے اس ساحلی علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیں، جو چند ماہ پہلے روس میں شامل کیے جانے والے جزیرہ نما کریمیا کو باقی ماندہ روس کے ساتھ ملاتا ہے۔

مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندی کے چار ماہ پرانے تنازعے کا جغرافیائی طور پر اس طرح پھیلنا مغربی دنیا کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے اور اسی لیے روس سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ یوکرائن کے بحران میں دخل اندازی بند کر دے۔

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے کل جمعے کو ہونے والے ایک اجلاس میں بہت سے رکن ملکوں کی طرف سے ماسکو پر مشرقی یوکرائن میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ روس کے خلاف زیادہ سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی جانی چاہییں۔ سویڈن کے وزیر خارجہ کارل بلٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا، ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ یوکرائن کے علاقے میں یوکرائن ہی کی فوج کے خلاف روسی فوج کے باقاعدہ دستے جارحانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔‘‘

برسلز میں 28 رکنی یورپی یونین کے آج ہفتے کے روز ہونے والے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں بھی یوکرائن کا بحران سرفہرست ہو گا اور یورپی رہنما اس بارے میں غور کریں گے کہ آیا روس پر نئی اقتصادی پابندیاں لگائی جانی چاہییں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید