باڈن باڈن میں ممتاز جرمن مصور بازے لِٹس کے شاہکار
30 نومبر 2009کہا جاتا ہے کہ آرٹ کے ماہرین کی نظر میں ایسی کوئی تصویر معیاری کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی، جو دیکھنے والے کے جذبات اور احساسات میں تلاطم بپا نہ کرے۔ اکہتر سالہ گیورگ بازے لِٹس کی بنائی ہوئی تصویروں میں یہ چیز بھرپور طور پر موجود ہوتی ہے۔ کچھ ہَٹ کر دکھانا اور اشتعال دلانا اُن کے فن پاروں کا بنیادی وَصف ہوتا ہے۔
باڈن باڈن میں اکیس نومبر کو شروع ہونے والی اِس نمائش میں بازے لِٹس کے تقریباً ایک سو چالیس شاہکار رکھے گئے ہیں، جن میں کوئی اَسی آئل پینٹنگز جبکہ چالیس سے زیادہ ڈرائنگز یا مجسمے شامل ہیں۔ یہ نمائش بازے لِٹس کے شروع کے دَور سے لے کر اب تک کی تخلیقات کا احاطہ کرتی ہے۔ فنکار کون ہوتا ہے اور اُسے کیسے دیکھا جانا چاہیے، بازے لِٹس کہتے ہیں:’’ایک فنکار کا تصور ایک ایسے شخص کے طور پر کیا جانا چاہیے، جس نے کسی یونیورسٹی میں نہ پڑھا ہو، جو تعلیم یافتہ نہ ہو وغیرہ وغیرہ بلکہ جو ایک ایسا شخص ہو، جو ٹٹول ٹٹول کر زندگی میں اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔‘‘
بلاشبہ بازے لِٹس نے اپنا راستہ خود تلاش کیا ہے۔ اِس راستے میں اُنہوں نے نازی سوشلسٹ دیکھے، دوسری عالمی جنگ دیکھی اور مشرقی جرمنی کے کمیونسٹ نظام کے ساتھ ساتھ وفاقی جمہوریہء جرمنی کے اقتصادی معجزےکا بھی مشاہدہ کیا۔ وہ کہتے ہیں:’’ہم دوسری عالمی جنگ کے کھنڈرات میں بڑے ہوئے ہیں۔ مَیں خود کھنڈرات میں پلا بڑھا ہوں۔ میرے والد یا یوں کہئے کہ میرے والدین کی نسل اِن کھنڈرات کی ذمہ دار تھی۔ وہ یا مَیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس دُنیا میں ہم پیدا ہوئے تھے، وہ ہر لحاظ سے شاندار اور درست تھی۔‘‘
بازے لِٹس کے فن میں ہر قسم کے رنگ ملتے ہیں۔ اُنہوں نے حقیقت پسندانہ مصوری بھی کی ہے۔ برقی آری سے مجسمے تخلیق کئے ہیں جبکہ ساٹھ کے عشرے سے وہ ایسی پینٹنگز بنا رہے ہیں، جو اُلٹی ہوتی ہیں، یعنی دیکھنے والے کو نیچے والا حصہ اوپر اور اوپر والا نیچے نظر آتا ہے۔
چالیس سال پہلے بھی باڈن باڈن میں اُن کے فن پاروں کی ایک بڑی نمائش ہوئی تھی اور اب وہ ایک بار پھر اپنے درجنوں اہم شاہکاروں کے ساتھ اِس شہر میں واپس لوٹے ہیں۔ یہ نمائش آئندہ برس چَودہ مارچ کو اپنے اختتام کو پہنچے گی۔
رپورٹ : امجد علی
ادارت : شادی خان سیف