عمومی طور پر انارکی کو منفی معنوں یعنی افراتفری، دنگے، فساد اور خون خرابے سے جوڑا جاتا ہے اور پاکستان میں اسی انارکی کی ابتدائی علامات نظر آ رہی ہیں۔
ایک ویڈیو موصول ہوئی، جس میں مساجد سے اعلان کیا جا رہا تھا کہ کوئی بھی شہری بجلی کا بل ادا نہ کرے۔ سیاسی شعبدہ بازی تو ہوتی رہی لیکن عوامی سطح پر میں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا اعلان ہوتے نہیں سنا۔ شاید میری پیدائش سے پہلے کوئی تحریک سول نافرمانی نہ چلی ہو لیکن یہ اعلانات میرے لیے حیران کن تھے۔ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ لوگ حکومت کے مدمقابل آتے جا رہے ہیں۔
دو روز قبل ایک دوست کی کال موصول ہوئی۔ بہت ہی اچھا انسان ہے، خود دار بھی ہے اور عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھنے والا ہے۔ ان کے ایف اے میں پڑھنے والے بیٹے نے بات کی کہ ابو خود آپ سے بات نہیں کرنا چاہتے، وہ شرمندہ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بل کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ میں حیران تھا کہ اس انسان نے تو زندگی میں کبھی ایسا سوال نہیں کیا۔ خیر میں جو کر سکتا تھا کیا لیکن ابھی تک خیال آ رہا ہے کہ اس نے دل پر کتنا بڑا پتھر رکھ کے فون کیا ہو گا؟ یعنی بلوں کی ادائیگی لوگوں کے بس میں نہیں رہی۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر بلوں میں اضافے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ایک احتجاجی تحریک چلتی دکھائی دے رہی ہے، اب ایک پرامن انسان یہی کر سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر اسی وجہ سے چند لوگوں کی خودکشی کرنے کی غیرمصدقہ اطلاعات ہیں۔ آپ سوچیں آپ نظام کے ہاتھوں کتنا بے بس محسوس کرتے ہیں، تو خودکشی کے خیالات تک پہنچتے ہیں۔
اسی طرح ایک ویڈیو میں لوگ واپڈا کے اُن ملازمین کو زدو کوب کرتے نظر آتے ہیں، جو بل کی ادائیگی پر میٹر کاٹنے گئے ہیں۔
آپ خود بتائیں کہ حکومتی فیصلوں یا حکومتی اداروں کا کتنا ڈر لوگوں میں باقی بچا ہے؟
جب ڈر نہیں رہتا تو لوگ سینہ تان کر کھڑے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب ایسا ہو تو آپ انتشار پھیلنے کے دہانے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے لیے یہ 'الارمنگ صورتحال‘ ہوتی ہے۔ بلکہ مہذب ملک تو احتجاج کی ابتدائی اشکال سے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں، یہ تشدد، جلاؤ گھیراؤ تو احتجاج کی آخری شکلوں میں سے ایک ہے۔
مسئلہ صرف عوام کا نہیں ہے۔ ہمارے مقتدر حلقوں نے عملی طور پر دکھایا ہے کہ اس ملک کے ہر قانون اور قاعدے کو توڑا جا سکتا ہے۔ آپ نے دنیا میں کبھی سنا ہے کہ ملک کا صدر کہہ دے کہ یہ قانون میرے دستخط کے بغیر بن گیا ہے؟ یعنی یہ عوام کو پیغام گیا ہے کہ صدر کا عہدہ کوئی عہدہ نہیں ہے۔ آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ سپریم کورٹ حکم دے اور یہ خدشہ بھی ظاہر کرے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہونا؟ یہ عوام کے لیے پیغام ہے کہ سپریم کورٹ بھی ایک بے بس ادارہ ہے۔
پارلیمان کی بے بسی اب ہر نوجوان کے سامنے ہے۔ یعنی ملک میں میرٹ، قانون یا انصاف کی کوئی شکل ہی نہیں بچی ہے۔
ایسی صورت حال میں اگر گلیوں میں دن دہاڑے لوٹ مار ہو، سرکاری ملازمین کی پٹائی ہو، سرکاری املاک کا جلاؤ گھیراؤ ہو، غریب لوگوں کی خودکشیاں ہوں، مساجد سے بلوں کی ادائیگی نہ کرنے کے اعلانات ہوں، اقلیتوں کے گھروں، مندروں یا گرجا گھروں پر حملے ہوں تو حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔
عام آدمی کے لیے بجلی مہنگی کرنے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں نے بڑے عہدوں والے سرکاری ملازمین اور اراکین پارلیمان کو فری بجلی اور پٹرول دے کر یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے گھروں کے دیے عوام کے خون پسینے سے جلائے جائیں گے۔
جب صورتحال ایسی ہو جائے تو پھر قتل و غارت ہوتی ہے، چوریاں ہوتی ہیں، سرعام ڈاکے ڈلتے ہیں، جھتے بنتے ہیں، جرائم پیشہ گروہ جنم لیتے ہیں۔ ایسی انارکی، حکومتی رٹ کے خاتمے اور ایک معاشرے کے زوال کی ابتدائی علامت ہے۔
اس وقت پاکستانی سماج کو دوطرفہ احترام، بنیادی حقوق، بنیادی سہولیات، براہ راست جمہوریت اور بلاتخصیص انصاف کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔