بحالیِ عدلیہ تحریک: نجی ٹی وی چینل کی بندش کے خلاف مظاہرہ
15 مارچ 2009شرکاء ئے آزاد عدلیہ اور آزادئ صحافت کے حق میں نعرے لگائےـ
حکومتی اقدامات کے خلاف ہونے والے مارچ کے شرکاء وزیراعلیٰ ہائوس تک گئے جہاں جیو ٹی وی کے سربراہ عمران اسلم نے خطاب کرتے ہوئے پیمرا ترمیمی آرڈیننس کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور میڈیا کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیرقانونی اور غیر آئینی قرار دیاـ
حکومت کا کہنا ہے کہ جیو ٹی وی کی نشریات بند نہیں کی گئی بلکہ صرف کیبل آپریٹرز نے چینلوں کے نمبروں کی ترتیب تبدیل کی ہے۔ ان حلقوںکا یہ بھی کہنا ہے کہ جیو ٹی وی کی انتظامیہ غلط بیانی سے کام لے کر سستی شہرت حاصل کرناچاہتی ہےـ
کراچی یونین آف جرنلسٹ اور کراچی پریس کلب کے ممبران نے جیو ٹی وی کے احتجاجی مظاہرے میں شرکت سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان کی مرکزی تنظیم پاکستان فیڈریل یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے انہیں مظاہرے میں شرکت کے حوالے سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئی ہیں۔ پریس کلب میں موجود بیشتر صحافیوںکا کہنا تھا کہ جیو ٹی وی اور جنگ گروپ دیگر چینلز اور اخبارات کو درپیش مشکلات اور مسائل میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے، جس کی وجہ سے اب جنگ گروپ سے تعاون کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ازسرنو غور کیا جا رہا ہےـ
دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی اورسپریم کورٹ بار کے سابق صدر منیر ملک کو انتظامیہ نے کراچی سے اسلام آباد سے جاتے ہوئے جہاز میں بیٹھنے کے بعد آف لوڈ کر دیا، جہاز سے اتارے جانے کے بعد ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر جسٹس رشید اے رضوی نے کہا کہ حکومت ایک جانب مفاہمت اور مذاکرات کی بات کر رہی ہے اور دوسری جانب سینکڑوں وکلاء ، سول سوسائٹی کے ارکان اور سیاسی جماعتوں کے حامیوں کو گرفتار کر کے مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں، ایسے میں مفاہمت کی بات حکومت کی منافقت ہے۔ رشید اے رضوی نے کہا کہ دھرنے کا عمل مسلسل جاری رہے گا، جب بھی رکاوٹیں اور پابندیاں ہٹیں وہ اور ان کے ساتھی دھرنے کے لئے اسلام آباد جائیں گےـ
ایوان صدر کی جانب سے مفاہمانہ رویہ سامنے آنے کے باوجود مسلم لیگ ن اور وکلاء تنظیموںنے دھرنے کے آغاز کے لئے اپنی تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بظاہر حکومت لانگ مارچ کے حوالے سے دبائو کا شکار نظر آتی ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایوان صدر کی جانب سے مفاہمت اور دوبارہ مذاکرات کی پیشکش دراصل امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن اور فوج کے سربراہ جرنل اشفاق پرویز کیانی کی کوششوں اور دبائو کا نتیجہ ہے جو وہ کئی روز سے کر رہے تھے۔