بحرین کا قطر پر خطے میں فوجی کشیدگی کا باعث بننے کا الزام
26 جون 2017بحرین کے وزیر خارجہ شیخ خالد بن احمد بن الخلیفہ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا،’’قطر کے ساتھ اختلاف ایک سیاسی اور سکیورٹی تنازعہ ہے اور یہ کبھی بھی فوجی مسئلہ نہیں رہا۔ لیکن اسلحے سے لیس غیر ملکی فوجی دستوں کی آمد کا مطلب خطے میں فوجی کشیدگی میں اضافے سے عبارت ہے،جس کے نتائج قطر کو بھگتنا ہوں گے۔‘‘
سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات اُن متعدد ممالک میں شامل ہیں، جنہوں نے رواں ماہ کی پانچ تاریخ کو دوحہ حکومت پر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے اُس سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ قطر نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔
مذکورہ ممالک نے قطر کے لیے اپنی فضائی حدود کے استعمال پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے اور زمینی راستے بھی بند کر دیے ہیں۔
گزشتہ ہفتے سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے 13 نکات پر مبنی ایک شرائط نامہ پیش کیا تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ قطر ان شرائط پر عمل کرے، تو اس کے ساتھ تعلقات بحال ہو سکتے ہیں۔
ترکی اس بحران میں قطر کی کھل کر حمایت کر رہا ہے جبکہ بحرین اس تنازعے میں سعودی عرب کا حمایتی ہے۔ انقرہ نے گزشتہ ہفتے تئیس فوجی اہلکار اور پانچ بکتر بند گاڑیاں اپنے خلیجی اتحادی ملک قطر کو بھیجی ہیں جبکہ ترکی کے نوے فوجی پہلے سے ہی قطر میں موجود ہیں۔
بحرینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر کچھ علاقائی طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اُن کی مداخلت سے یہ تنازعہ حل ہو جائے گا تو وہ غلطی پر ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ قطر پہلے ہی سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے پیش کردہ مطالبات مسترد کرچکا ہے۔ ان مطالبات میں الجزیرہ ٹیلی وژن کی بندش کے علاوہ قطر میں ترکی کی فوجی چھاؤنی کو ختم کرنے کے مطالبہ بھی شامل ہے۔