بحری جہاز سے کنٹینر بھیجنے کے پینسٹھ برس
26 اپریل سن 1956 کو پہلی مرتبہ سامان سے بھرا کنٹینر بحری جہاز روانہ کیا گیا تھا۔ تجارت کے اس طریقہ کار کو میلکم پی میکلین نے متعارف کرایا۔ وہ اسکاٹش نسل کے امریکی تھے اور انہوں نے سمندر کے راستے تجارت کو نئی جہت دی تھی۔
ایک شخص اور اس کے صندوق
میلکم پی میکلین بحری جہاز کے مالک تھے اور سن 1956 میں انہیں خیال آیا کہ مختلف صندقوں کو علیحدہ علیحدہ بھیجنے کے بجائے اگر ایک بڑے کارٹن میں ڈال کر بحری جہاز سے روانہ کر دیا جائے تو کیسا رہے گا۔ یہی خیال کنٹینر کی دریافت کا باعث بنا۔ کنٹینر سے لوگوں کے اخراجات میں کمی آئی۔
نوکریاں کم ہو گئیں
میلکم پی میکلین نے سمندر کے راستے تجارت کو انقلابی صورت دے کر دنیا کی بندر گاہوں پر ہلچل پیدا کر دی۔ اس دریافت نے جہاں لوگوں کے اخراجات کم کیے وہاں سامان برداری سے وابستہ بے بہا افراد بیروزگار ہو گئے۔
بڑے سامان بردار بحری جہاز
سن 1956 میں میلکم پی میکلین نے ایک آئل ٹینکر کو خرید کر اسے سامان بردار بحری جہاز میں تبدیل کر دیا۔ آج کے دور میں انتہائی بڑے سامان بردار بحری جہاز سمندر میں رواں دواں ہیں۔ ان میں ایچ ایم ایم الجیسراز کوریائی کمپنی ہائنڈائی کی ملکیت ہے اور یہ ایک ساتھ چوبیس ہزار ٹن وزن لے جا سکتا ہے۔ اس کی لمبائی چار سو میٹر اور نچلا حصہ پانی میں سولہ میٹر نیچے تک ہوتا ہے۔
جرمنی پہنچنے والے پہلے کنٹینرز
مئی سن 1966 کو بریمن کی اوورسیز بندرگاہ پر میلکم پی میکلین کی کمپنی کا بحری جہاز دی فیئر لینڈ لنگر انداز ہوا اور کنٹینرز کی پہلی کھیپ جرمنی میںﺍتاری گئی۔ اس کھیپ میں ایک سو دس کنٹینرز تھے۔ میکلین کی کنٹینرز سروس وقت گزرنے کے ساتھ کامیابی کی منازل طے کر رہی تھی۔
ایک معیاری کنٹینر
وقت کے ساتھ ساتھ ایک کنٹینر کی لمبائی اور چوڑائی کا تعین کر دیا گیا۔ معیاری کنٹینر بیس فٹ یونٹ (TEU) کا ہوتا ہے۔ کنٹینرز مختلف طرح کے ہوتے ہیں، ان میں یخ بستہ سامان رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ جانوروں اور بڑے سامان کے لیے کنٹینر کا حجم تبدیل کرنا ممکن ہے لیکن عمومی طور پر ان کی جسامت ایک جیسی ہوتی ہے۔
ترسیل کی بڑھتی ضروریات
عالمی تجارت کا نوے فیصد سامان سمندر کے ذریعے ہی ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ سامان لادنے اور اتارنے کا عمل رکتا نہیں۔ جرمنی کی بندر گاہ ہیمبرگ کی بوشارڈ گھاٹ پر ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ چھ ہزار دو سو سے زائد سامان بردار بحری جہازوں کے ذریعے ساڑھے چوبیس ملین ٹن سامان کی ترسیل ہوتی ہے۔
بندرگاہ کو ریل سے جوڑ دیا گیا
بحری جہازوں سے بندرگاہوں تک پہنچنے والے سامان کی ملک میں فراہمی کے لیے اب ریل کی پٹری کو بندرگاہوں تک پہچانے کا سلسلہ بھی شروع ہے۔ جرمن بندر گاہ ہیمبرگ کا سامان روانہ کرنے کا اپنا ریلوے اسٹیشن ہے۔ تصویر میں نظر آنے والی کرین سامان مال گاڑی پر لادتے ہیں۔
محفوظ کنٹرول
بندرگاہوں پر پہنچنے والے سامان کی بہتر انداز میں ترسیل ایک محفوظ نظام کے تحت ہی ممکن ہے۔ جرمن پورٹ ہیمبرگ پر سامان کی نقل و حمل کی نگرانی کا ایک انتہائی مؤثر نظام موجود ہے۔ یہ نظام کسی ہوائی اڈے کے کنٹرول ٹاور کی طرح کام کرتا ہے۔
اسمگلنگ کا ذریعہ
عالمی تجارت میں ہزاروں کنٹینرز ایک مقام سے دوسری جگہ منتقل کیے جاتے ہیں۔ ہر کنٹینر کھول کر دیکھنا ممکن نہیں اس لیے سامان کی تفصیل پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے اسمگلر بھی اپنا سامان چھپا کر کنٹینر میں ڈال دیتے ہیں۔ تصویر میں پاکستان کے بریگیڈیئراشفاق الرشید خان ایک ڈرگ کنٹینر کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کی زیر نگرانی انسداد منشیات کے یونٹ نے اس کنٹینر میں رکھی گئی منشیات ڈھونڈ نکالی تھی۔