بحیرہ ایجیئن پر تنازعہ اور مہاجرین کا بحران
21 فروری 2016بحیرہ ایجیئن اب تک سینکڑوں مہاجرین کو نگل چکا ہے۔ یہ مہاجرین مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں، جیسا کے عراق اور شام سے نقل مکانی کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونان تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ بہت سوں کی کشتیاں یونان کے ساحلوں کو چھونے سے قبل ہی سمندر برد ہو جاتی ہیں۔ یورپی حکام کی کوشش ہے کہ مہاجرین کے بحران پر قابو پانے کے لیے بحیرہ ایجیئن کی نگرانی کو بہتر اور مؤثر بنایا جائے۔ تاہم بحیرہ ایجئین کی نگرانی کرنا ایسا آسان بھی نہیں ہے۔
بحیرہ ایجیئن کئی دہائیوں سے یونان اور ترکی کے درمیان چپقلش کا سبب بنا ہوا ہے۔ انیس سو چھیانوے میں بحیرہ ایجیئن کے ایک چھوٹے جزیرے پر تنازعہ اس قدر بگڑ گیا تھا کہ ترکی اور یونان جنگ کے دہانے پہنچ گئے تھے۔ اس وقت سے اب تک ترکی کی یہ کوشش رہی ہے کہ بحیرہ ایجیئن پر بڑھتے ہوئے یونان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جائے۔ اس صورت حال میں نیٹو کے دو اتحادی، یونان اور ترکی، کیا بحیرہ ایجیئن کی بہتر نگرانی کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے تنازعات کو پس پشت ڈال سکیں گے؟
یونان کا بحیرہ ایجیئن کے دس میل کے علاقے پر دعویٰ ہے۔ ترکی یونان کے اس دعوے سے متفق نہیں ہے اور وہ صرف یونان کے اس سمندر اور اس میں موجود جزائر کے چھ میل کے علاقے پر خود مختاری کا حامی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق یونان کا دعویٰ درست نہیں ہے۔
تاہم مہاجرین کے بحران کے تناظر میں یونان اور ترکی پر اس بات کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔
جرمنی کی جانب سے کی جانے والی متعدد اپیلیں انقرہ اور ایتھنز میں موجود حکام پر بے اثر رہی ہیں۔ اس ماہ کے اوائل میں جرمنی اور ترکی نے نیٹو سے درخواست کی تھی کہ وہ بحیرہ ایجیئن کی نگرانی کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرے۔
اس بابت ایتھنز کی ایک یونی ورسٹی کے پروفیسر آنگیلوس سِرگیوس کہتے ہیں، ’’یورپی یونین کی خواہش ہے کہ ترک کوسٹ گارڈز کو انسانی اسمگلروں کی حرکت کے بارے میں درست آگاہی حاصل رہے۔ اس وقت یورپی یونین کی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کی ترک ساحلوں پر انسانی اسمگلرز کی کارروائی پر کوئی اختیار نہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ترک کوسٹ گارڈز یورپ سے تعاون کریں تو معاملات بہتر انداز میں حل کیے جا سکتے ہیں۔