بحیرہ روم کے راستے غیرقانونی تارکین وطن کوکیسے روکا جائے؟
2 فروری 2017اس ملاقات کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ شورش کے شکار ملک لیبیا کے ساتھ کس طرح اس موضوع پر کام کیا جا سکتا ہے۔ لیبیا کی سرزمین اس وقت انسانوں کے اسمگلروں کا مضبوط ٹھکانہ بنی ہوئی ہے، جب کہ اس خطرناک راستے کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں افراد اپنی زندگیوں سے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں۔
مالٹا کے دارالحکومت والیٹا میں یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کا مرکزی موضوع وسطی بحیرہء روم سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کے بہاؤ کی روک تھام ہے۔
گزشتہ برس مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت ترکی کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کو روکے۔ اس ڈیل کے بعد ترکی سے یورپی یونین پہنچنے والے غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے، تاہم لیبیا سے اطالوی جزائر کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔
گزشتہ برس اس راستے سے قریب ایک لاکھ اسی ہزار افراد اطالوی جزائر پہنچے جب کہ ساڑھے چار ہزار افراد بحیرہء روم کی موجوں کا لقمہ بن گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بحیرہء روم سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد کا بڑا حصہ زیریں صحارا کے خطے کے ملکوں سے تعلق رکھتا ہے، جن میں سے 21 فیصد نائجیریا، 11 فیصد اریٹریا جب کہ باقی ماندہ گنی، آئیوری کوسٹ اور گمبیا کے شہری ہوتے ہیں۔
یورپی حکام کے مطابق ان تارکین وطن میں سے زیادہ تر افراد وہ ہیں، جو جنگوں یا مسلح تنازعات کی بجائے اقتصادی وجوہات کی بنا پر یورپ پہنچنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
سن 2015ء میں یورپی یونین نے بحیرہء روم کے بین الاقوامی پانیوں میں ’آپریشن صوفیہ‘ کے نام سے بحری گشت کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد انسانوں کے اسمگلروں کو روکنا تھا۔ اب تک یہ یورپی بحری گشتی اہلکار سینکڑوں کشتیوں کو اپنے قبضے میں لے چکے ہیں، جب کہ قریب ایک سو اسمگلروں کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس دوران 32 ہزار تارکین وطن کو ریسکیو بھی کیا گیا۔ یہ مشن لیبیا کی سمندری حدود میں کارروائیاں نہیں کر سکتا اور اسی وجہ سے اس کی کارکردگی محدود ہے۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ اس مشن کا دائرہ کار لیبیا کے پانیوں تک پھیلا دیا جائے، تاہم لیبیا میں مؤثر حکومت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں کافی رکاوٹیں حائل ہیں۔