برازیل کی ترقی اور Lulismo (لولا ازم) کی بڑھتی مقبولیت
23 جون 2011برازیل کے سابق صدر لولا ڈا سلوا نے ایک طرف ایسی پالیسیاں بنائیں، جو آزاد معیشت کے حق میں جاتی تھیں۔ ساتھ ساتھ اُنہوں نے ملک کی غریب آبادی کے لیے زبردست سماجی پروگرام بھی متعارف کروائے۔ برازیل کی حالیہ اقتصادی کامیابی کو ڈا سلوا کی پالیسی کے انہی دو بنیادی ستونوں کا کرشمہ کہا جا رہا ہے۔
سابق ٹریڈ یونین لیڈر لولا ڈا سلوا بائیں بازو کے سیاستدان سمجھے جاتے تھے اور 2002ء میں کہیں چوتھی مرتبہ اُس وقت برازیل کے صدر بننے میں کامیاب ہوئے، جب اُنہوں نے خود کو ایک اعتدال پسند سیاستدان کے طور پر رائے دہندگان کے سامنے پیش کیا۔
اپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں اُنہوں نےغربت کے خاتمے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ وال اسٹریٹ کے بینکرز کو بھی خوش رکھا اور برازیل کو بتدریج چین اور بھارت جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
اب لولا ڈا سلوا کی پالیسیاں برازیل سے باہر بھی Lulismo یا لولا ازم کے نام سے اپنائی جا رہی ہیں۔ جنوبی امریکہ میں بہت سے رہنما لولا کے نقش قدم پر چلے ہیں۔ ایل سلواڈور کے بائیں بازو کے سیاستدان ماؤریسیو فونیس نے 2009ء میں سابقہ مارکسسٹ گوریلوں کی پارٹی کے سربراہ کے طور پر اُس وقت صدارتی انتخابات جیت لیے، جب اُنہوں نے ملک کے متوسط طبقے کو قائل کر لیا کہ وہ وینزویلا کے ہوگو شاویز کی بجائے برازیل کے لولا سے زیادہ متاثر ہیں۔
اسی طرح یوروگوائے کے سابق گوریلا لیڈر خوسے موخیکا بھی لولا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صدر کے منصب پر فائز ہوئے۔ تازہ ترین مثال پیرو کے اولانٹا ہمالا کی ہے، جو صدر بننے کے بعد چند روز کے اندر اندر برازیل پہنچے تاکہ سابق صدر لولا ڈا سلوا سے بذاتِ خود مل کر اُن کی اور ان کے ملک کی گزشتہ عشرے کی کامیابی کا راز جان سکیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق جنوبی امریکہ میں جہاں لولا ازم کو روز افزوں مقبولیت حاصل ہو رہی ہے، وہاں ہوگو شاویز کی کٹر سوشلزم کی چمک ماند پڑتی جا رہی ہے کیونکہ اُن کی پالیسیاں اُن کے ملک وینزویلا میں کسی بڑی اقتصادی ترقی کا باعث نہیں بن سکی ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک