برسلز حملے: تین روزہ قومی سوگ، داعش کا اعتراف
22 مارچ 2016بیلجیم کے وزیراعظم چارلس مشل کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ جمعرات تک تمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ’’ہمیں جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ اس مشکل وقت اور بیلجیم کے اس تاریک لمحے میں تمام لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ پر امن رہیں اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔‘‘
اِسی دوران دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے برسلز حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ،’’خلافت کے سپاہیوں نے ایک صلیبی ریاست کے خلاف حملے کیے ہیں‘‘۔
برسلز میں ہونے والی ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد بیلجیم اور پڑوسی ممالک میں حفاظتی انتظامات کو انتہائی سخت کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بیلجیم کی پولیس نے مطلوب افراد کی فہرست بھی جاری کر دی ہے۔ حکام نے اعلان کیا ہے کہ حملوں کے دوران معطل کی جانے والی ٹرین سروس کو بھی جلد ہی بحال کر دیا جائے گا۔ برسلز کے ہوائی اڈے پر بھی جلد ہی پروازوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس دوران تقریباً چھ سو پروازیں منسوخ کی گئیں۔
دریں اثناء عالمی سطح پر ان حملوں کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ ترک صدر رجیب طیب ایردوآن نے بھی ان حملوں کی کڑی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد تنظیموں میں کوئی فرق نہیں ہے،’’ برسلز حملوں نے ثابت کیا ہے کہ دہشت گردی آزادی کے لیے جدوجہد کا طریقہ کار نہیں ہو سکتی۔ چاہے وہ کرد ملیشیا ہو جو انقرہ میں حملے کرتی ہے یا پھر بیلجیم میں دہشت گردی کرنے والے۔‘‘
اسرائیلی حکومت کے مطابق یورپی ممالک اسلامی شدت پسندی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کو تنقید بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔ اسرائیلی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اوفیر اکونس کے بقول،’’ میں ایک مرتبہ پھر دہراتا ہوں کہ زیادہ تر یورپین اسرائیل کی مذمت کرنے، اس کی اشیاء پر لیبلنگ اور ان کا بائیکاٹ کرنے میں مصروف تھے اور اسی دوران ان کی ناک کے نیچے اسلامی شدت پسندوں کے کیمپ پروان چڑھتے رہے‘‘۔
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کی دوڑ میں شامل ہلیری کلنٹن نے کہا،’’برسلز حملوں سے دہشت گردی اور بنیاد پرستانہ جہاد کو مل کر شکست دینے کے ہمارے ارادے اور بھی پختہ ہوں گے۔‘‘ اس سے قبل ایسی خبریں گردش کر رہی تھیں کہ بیلجیم کے تیہانگے کی جوہری تنصیب کو خالی کرا لیا گیا ہے تاہم اس جوہری پلانٹ کے نگران ادارے ’الیکٹرابیل‘ نےکہا،’’ تنصیب کو خالی نہیں کرایا گیا ہے لیکن جن افراد کی موجودگی لازمی نہیں ہے انہیں گھر بھیج دیا گیا ہے۔‘‘ جرمنی کی سرحد کے قریب واقع اس جوہری تنصیب کے گرد حفاظتی انتظامات بھی سخت کر دیے گئے ہیں۔