برطانوی رکن پارليمان کو بھارت ميں داخلے سے روک ديا گيا
17 فروری 2020برطانوی رکن پارلیمان ڈیبی ابراہمس پیر سترہ فروری کی صبح بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر پہنچيں اور امیگریشن کے لیے قطار میں کھڑی ہوئيں لیکن جب ان کی باری آئی، تو بھارتی حکام نے انہیں یہ کہہ کر داخلے کی اجازت نہیں دی کہ ان کا ویزا منسوخ کر دیا گيا ہے۔ ابراہمس کا تعلق برطانيہ کی لیبر پارٹی سے ہے، جو تنازعہ کشمیر سے متعلق برطانوی ارکان پارلیمان کے ايک گروپ کی سربراہ بھی ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈیبی ابراہمس نے بتايا ہے کہ ایئر پورٹ حکام نے ان کے ساتھ 'مجرموں‘ جیسا سلوک کیا۔ انہوں نے بتایا کہ صبح آٹھ بج کر پچاس منٹ پر وہ ہوائی اڈے پر اتریں اور جب امیگریشن کے لیے کاؤنٹر پر پہنچیں، تو حکام نے ان سے کہا کہ گزشتہ اکتوبر میں ایک برس کے لیے انہیں جو ویزا جاری کیا گيا تھا، اب اسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ڈیبی کے ہم سفر ہرپریت اپل نے بتایا کہ حکام یہ نہیں بتا رہے ہيں کہ ڈيبی کو کن وجوہات کی بناء پر داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تاہم وہ چیخ و پکار کر رہے تھے کہ ان کے پاس ویزا نہیں ہے۔ ڈیبی نے اپنے ویزے کی جو کاپی خبر رساں ادارے اے پی سے شیئر کی، اس میں اکتوبر 2020 تک انہیں بھارت میں داخلے کی اجازت ہے۔
انسٹھ سالہ ڈیبی ابراہمس سن 2011 سے برطانوی پارلیمان کی رکن ہیں۔ وہ دو روز کے لیے بھارت کے دورے پر آنے کی خواہشمند تھيں، جس کے بعد انہیں تین روز کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دورے پر بھی جانا ہے۔ اس پيش رفت کے بعد برطانیہ واپسی کے لیے دہلی ایئر پورٹ پر اپنی پرواز کی منتظر ڈیبی نے اے پی کو فون پر انٹرویو دیتے ہوئےکہا کہ وہ گزشتہ اکتوبر سے لندن میں قائم بھارتی ہائی کمیشن سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دورے پر جانے کے لیے کوششيں کر رہی تھیں تاہم وہ اس ميں کامياب نہ ہو سکيں۔ دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جانے کی انہيں اجازت مل گئی اور وہ اسی ہفتے اسلام آباد جانے والی ہیں۔
ابراہمس نے کہا کہ شاید اسی وجہ سے ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا۔ ''بھارتی حکام ميرے پاکستانی دورے کے بارے ميں بھی آگاہ تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ فيصلے کے پيچھے امکاناً سياسی عناصر کارفرما ہيں۔ میں نے ویزے کی منسوخی کی وجہ جاننے کی کوشش کی اور یہ بھی کوشش کی دہلی آمد پر ویزا مل سکے لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جو شخص انچارج تھا اسے بھی صورت حال پر افسوس تھا۔ تو اب میں واپس بھیجے جانے کی منتظر ہوں یا پھر بھارتی حکومت کا دل بدل جائے۔ میرے ساتھ 'مفرور مجروموں‘ جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ امید ہے حکام مجھے میرے دوست و احباب سے ملنے دیں گے۔‘‘
دوسری جانب بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ ڈیبی کے پاس مناسب ویزا نہیں تھا اور اسی لیے انہیں بھارت ميں داخلے کی اجازت نہيں دی گئی۔
برطانوی رکن پارليمان بھارت کے زير انتظام کشمير ميں حکومتی اقدامات پر نکتہ چینی کرتی رہی ہیں۔ پچھلے سال اگست ميں جب کشمیر کی خصوصی آئينی حيثيت ختم کی گئی، ابراہمس نے برطانیہ میں بھارتی ہائی کمیشن کو اپنے ایک مکتوب میں لکھا کہ 'یہ اقدامات کشمیری عوام کے اعتماد کے ساتھ ایک فریب ہيں۔‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ چھ ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے سخت ترین پابندیاں نافذ ہیں۔ بھارت نےگزشتہ برس جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بھی ختم کر دیا تھا اور اس خطے کو براہ راست مرکز کے زیر انتظام کر کے دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ دريں اثناء فون اور انٹرنیٹ پر پابندی کے ساتھ ساتھ کرفیو جیسی بندشیں عائد کر دی گئی تھیں اور ریاست کے بیشتر رہنماؤں کو بھی گرفتار کر لیا گيا تھا۔ ان میں سے بہت سی پابندیاں اب بھی عائد ہیں جب کہ بیشتر سیاسی رہنما اب بھی قید میں ہیں۔ گزشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی موجودہ صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی لیکن بھارت نے اسے مسترد کر دیا۔
ص ز / ع ص، نيوز ايجنسياں