برطانوی سیاست میں نئے دور کا آغاز
15 اپریل 2010برطانیہ میں اگلے ماہ کی چھ تاریخ کو عام انتخابات منعقد ہورہے ہیں تاہم لاکھوں برطانوی ووٹرز کی رائے اب بھی منقسم ہے۔ براوٴن اور کیمرون کے درمیان جمعرات کی شب نشر کیا جانے والا نوے منٹ دورانیے کا مباحثہ شاید عوامی رائے کی صورتحال مزید واضح کردے۔
عوامی جائزوں میں اگرچہ قدامت پسند امیدوار ڈیوڈ کیمرون کو لیبر پارٹی کے رہنما اور وزیر اعظم گورڈن براؤن پر معمولی برتری حاصل ہے تاہم اس میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق برطانیہ کے 60 فیصد سے زائد رائے دہندگان اس مباحثے کو دیکھیں گے اور اس میں رہنماوٴں کی کارکردگی کی بناء پر ہی یہ فیصلہ کریں گے کہ ووٹ کس کو دینا ہے۔
جمعرات کے مباحثے کا موضوع برطانیہ کے داخلی معاملات ہیں جبکہ اگلے ہفتوں میں خارجہ پالیسی اور معاشی ترجیحات کو خصوصی توجہ حاصل رہے گی۔ اس تاریخی مباحثے کے لئے 76 ضابطے بھی تشکیل دئے جا چکے ہیں۔
وزیر اعظم کے عہدے کے دونوں ہی امیدوار کئی دنوں سے اس مشق میں مصروف ہیں کہ کس طرح والات کے مختصر، مگر جامع اور پُر اثر جوابات دئے جائیں۔ ان مباحثوں میں 59 سالہ براؤن اور 43 سالہ کیمرون کے علاوہ 43 سالہ لبرل ڈیموکریٹ امیدوار نک کلیگ بھی حصہ لیں گے، جن کی جماعت مقبولیت کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے۔ برطانیہ میں برسراقتدار لیبر پارٹی گزشتہ بارہ سال سے حکومت کر رہی ہے۔ اہم مواقع پر لیبر پارٹی کے وزیر اعظم براؤن کے خطابات چونکہ ویسے ہی عوام تک پہنچتے رہتے ہیں لہٰذا زیادہ دباؤ کیمرون پر ہونے کا امکان موجود ہے۔
ڈیوڈ کیمرون، جن کی جماعت کنزر ویٹو پارٹی تیرہ سال تک اقتدار سے باہر رہی ہے، یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اس مباحثے کے لئے قدرے ’نروس‘ ضرور ہیں۔ قدامت پسند کیمرون پر دباؤ کا ایک اور سبب ان کی معاشی ترجیحات پر سامنے آنے والی والی تنقید ہے۔ برطانوی اخبار ’ٹیلی گراف‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ 50 سرفہرست ماہر اقتصادیات نے ایک ایسے خط پر دستخط کئے ہیں، جس میں کیمرون کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی ہے۔ ان میں مبینہ طور پر امریکہ، برطانیہ، جرمن، آسٹریلیا، اور کینڈا کے ماہرین شامل ہیں۔ ان ماہرین کے خیال میں اخراجات میں چھ ارب پاونڈز کی کمی کرنے سے متعلق کیمرون کے عزائم سے برطانیہ دوبارہ اقتصادی تنّزلی کا شکار ہو سکتا ہے۔
بعض حلقوں میں البتہ کیمرون کو جمعرات کے مباحثے میں زیادہ مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ بیشتر جائزوں میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ شاید سن 1974ءکے بعد پہلی بار برطانیہ میں ایسا ہو کہ کوئی بھی جماعت واضح کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ ایسی صورت میں پھر متوقع طور پر تیسرے نمبر پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے لبرل ڈیموکریٹ امیدوار نک کلیگ کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ لبرل ڈیموکریٹس برطانوی سیاست میں اس نئے دور کے آغاز سے خوش ہیں کہ اچھا ہے سیاسی شخصیات کے بارے میں عوام کے سامنے زیادہ حقائق سامنے آسکیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: گوہر نذیر گیلانی