1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمبرطانیہ

برطانوی قاتل، جس نے 101 مردہ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی

3 نومبر 2022

ڈیوڈ فلر کے جرائم کی طویل فہرست میں اپنے بھیانک فعل کی فلمبندی کے علاوہ بچوں کی نازیبا تصاویر اتارنا بھی شامل ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس مجرم کے جرائم کا مکمل احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔

https://p.dw.com/p/4J28K
UK Kriminalität l Polizeibild von David Fuller
تصویر: Kent Police/AFP

برطانیہ میں دو خواتین کو قتل کرنے اور مردہ خانوں میں لاشوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے جرم  میں عمر قید کی سزا بگھتنے والے ایک  مجرم نے جمعرات کو مزید 23 مردہ خواتین کی بے حرمتی کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
68 سالہ ڈیوڈ فلر ہسپتال میں الیکٹریشن کے طور پر کام کرتا تھا۔ مجرم نے اس سے قبل 1987ء میں جنوب مشرقی انگلینڈ کے شہر کینٹ میں 25 سالہ وینڈی کنیل اور 20 سالہ کیرولین پیئرس کو گلا گھونٹ کر قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

Südafrika I Polizei untersucht mindestens 22 Todesfälle in einer Taverne in East London
مجرم ڈیوڈ فلر ہسپتال میں الیکٹریشن کا کام کرتا تھاتصویر: STRINGER/REUTERS


مجرم  نے 2008 ء اور 2020ء کے درمیان مردہ خانوں میں 78 متاثرین سے متعلق 51 دیگر جرائم کا بھی اعتراف کیا۔
جمعرات کو کروڈن کے کراؤن کورٹ میں ایک سماعت کے دوران فلر نے ہسپتال کے مردہ خانے میں مزید 23 مردہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کا اعتراف کیا، جس میں ایک لاش کے ساتھ بارہ مرتبہ جنسی زیادتی کرنا بھی شامل ہے۔ مجرم کے ان اعترافات کے بعد اس کے متاثرین کی کل تعداد 101 ہو گئی۔
پراسیکیوٹر مائیکل بسگرو نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کے بیانات اس وقت کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں جب اگلے ماہ فلر کو سزا سنائی جائے گی۔

یورپ میں خواتین کے قتل کے سب سے زیادہ واقعات فرانس میں کیوں؟
انہوں نے مزید کہا، ’’متاثرین کے خاندان کے بہت سے افراد ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے عدالت میں حاضر ہونا چاہیں گے، جن میں سے کچھ ایسے ہیں جو عدالت میں متاثرین کے بارے میں اپنے ذاتی بیانات پڑھنا چاہیں گے۔‘‘
گزشتہ سال مجرم کو قتل کے مقدمے میں سزا سناتے ہوئے جج بوبی چیمہ-گرب نے کہا تھا کہ فلر بظاہر ایک ’معمولی اور عام زندگی‘ گزار رہا تھا، لیکن ’تنہائی میں انتہائی بھیانک حرکتیں‘ کرتا تھا۔
اس جج کا مجرم کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ’’زندگی سے بھر پور دو نوجوان عورتوں کو مارنے کے بعد، تم مردہ لوگوں میں اپنا شکار چننے والے گدھ بن گئے، تمہیں ہسپتال کے مردہ خانوں کی چھپی ہوئی دنیا کے اندر آزاد رہنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا، صرف اس لیے کہ تمھارے پاس سوائپ کارڈ(چابی) تھا۔‘‘  

  
مجرم کے گھر کی تلاشی لینے والے پولیس اہلکاروں کو معلوم ہوا کہ اس  نے ان دو مردہ خانوں میں لاشوں پر جنسی حملوں کے دوران اپنی فلم بندی بھی کی تھی۔ فلر نے ان دونوں جگہوں پر 1989ء سے بجلی کی دیکھ بھال کے شعبے میں کام کیا تھا۔
اس کے جرائم کی فہرست میں  لاشوں کے ساتھ جنسی زیادتی اوراس عمل کی فحش تصویر رکھنا اور بچوں کی نا زیبا تصاویر لینا شامل ہیں۔

Großbritannien | UK | Statement zur COVID-19 Situation im Parlament,  London
سابق برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید نے فلر کے جرائم کو ’انتہائی پریشان کن‘ قرار دیا تھاتصویر: Jessica Taylor/REUTERS

قاتل کتنے سنگ دل ہو سکتے ہیں: جرمن جوڑے کو طویل سزائے قید
مجرم کے خلاف یہ شواہد 2008 ء سے ملے۔ یہ وہ دور تھا، جب ڈیجیٹل فوٹو گرافی عام ہو رہی تھی، تاہم پولیس کا خیال ہے کہ فلر کے جرائم کا صحیح پیمانہ کبھی معلوم نہیں ہو سکتا۔
اس وقت کے برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید نے فلر کے جرائم کو ’انتہائی پریشان کن‘ قرار دیا اور وعدہ کیا تھا کہ ’’اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کارروائی کی جائے گی کہ ایسا دوبارہ کبھی نہ ہو۔‘‘
حکومت نے اس بارے میں ایک آزادانہ انکوائری  کروانے کا اعلان کیا ہےکہ فلر کے جرائم کا اتنے طویل عرصے تک معلوم کیوں نہیں ہوسکا۔
ش ر/ش ح (اے ایف پی)