1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبرطانیہ

برطانوی وزير اعظم جانسن کو عدم اعتماد کی تحريک کا سامنا

6 جون 2022

برطانوی وزير اعظم بورس جانسن کو ممکنہ طور پر عدم اعتماد کی تحريک کا سامنا ہے۔ کورونا کی وبا کے دور ميں لاک ڈاؤن کے باوجود کئی نجی محفلوں کے انعقاد کی وجہ سے وزير اعظم شديد دباؤ ميں ہيں۔

https://p.dw.com/p/4CKgB
Großbritannien Premierminister Boris Johnson
تصویر: Matt Dunham/AP Photo/picture alliance

برطانوی وزير اعظم بورس جانسن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی جا سکتی ہے۔ ان کی اپنی ہی 'کنزرويٹو پارٹی‘ کے ايک اہلکار گراہم بريڈی نے پير کو بتايا کہ انہيں 54 قانون سازوں کے خط موصول ہوئے ہيں، جن کا مطالبہ ہے کہ جانسن کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے۔ پارٹی کے قوانين کے مطابق عدم اعتماد کی تحريک کو عملی جامعہ پہنانے کے ليے يہ کافی تعداد ہے۔ نتيجتاً بريڈی نے اعلان کيا کہ ووٹنگ پير کی شام ہو سکتی ہے اور اس کے کچھ ہی دير بعد نتائج کا اعلان بھی کيا جا سکتا ہے۔

برطانوی وزير اعظم کو عدم اعتماد کی تحريک کا سامنا کيوں؟

کورونا کی وبا کے دور ميں جس وقت برطانيہ کے بيشتر حصوں ميں سخت لاک ڈاؤن نافذ تھا، بورس جانسن نے کئی نجی محفلوں کا انعقاد کيا، جو ان کے گھر پر بھی تھيں اور دفتر ميں بھی۔ گو کہ انہوں نے بعد ازاں ان پر معافی مانگی اور يہ بھی کہا کہ انہوں نے جان بوجھ کر لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہيں گی مگر کنزرويٹو پارٹی کی ايک داخلی رپورٹ کے مطابق وہ قائدانہ کردار دکھانے ميں ناکام رہے۔

عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے، تحریک عدم اعتماد کامیاب

عمران خان کا سیاسی زوال، مسئلہ خارجہ پالیسی یا داخلہ

کورونا وائرس: کئی ملکوں ميں پھر لاک ڈاؤن، چند ميں ہنوز نرمی

'کنزرویٹو پارٹی‘ کے اس وقت 359 ارکان پارلیمنٹ ہیں۔ ان ميں سے اگر پندرہ فيصد تمام بیک بینچ کنزرویٹو قانون سازوں کے پارلیمانی گروپ 1922 کمیٹی کے چیئرمین کو خط لکھيں، تو تحريک چلائی جا سکتی ہے۔ گراہم بريڈی کے مطابق يہ شرط پوری ہو چکی ہے۔

کیا جانسن کے حق ميں بھی کوئی ہے؟

بورس جانسن کی کابینہ کے کئی ممبران نے ان کی حمایت کا وعدہ کیا، بشمول سیکرٹری خارجہ لز ٹروس، جنہوں نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کی حمایت کی۔ سینئر وزیر مائیکل گوو نے بھی جانسن کی حمایت کا اظہار کیا۔

اعتماد کے ووٹ کے دوران کیا ہوتا ہے؟

تمام کنزرویٹو ممبران پارلیمنٹ یا تو رہبر کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ جانسن کو جیتنے کے لیے سادہ اکثریت درکار ہو گی۔ جانسن کو عہدے سے ہٹانے کے لیے عدم اعتماد کے کم از کم 180 ووٹ درکار ہوں گے۔

اگر جانسن جیت گئے، تو کیا ہو گا؟

فتح کی صورت میں جانسن عہدے پر رہيں گے اور انہيں ایک سال کے لیے کسی اور رسمی چیلنج سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔ تاہم اگر وہ واضح اکثريت سے جیتنے میں ناکام رہے تو وہ پارٹی لیڈر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہيں۔ اس صورت ميں پارٹی نيا سربراہ چنے گی اور وزير اعظم بھی وہی بنے گا۔

اور اگر جانسن ہار گئے؟

اگر وہ ووٹنگ ميں ناکام ہوتے ہيں، تو جانسن کو استعفیٰ دینا پڑے گا اور نئی قيادت کے چناؤ کے الیکشن میں کھڑے نہيں ہو سکتے۔ اس عمل میں چھ ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اس دوران جانسن سے توقع کی جائے گی کہ وہ نگران وزیر اعظم کا کردار ادا کریں۔ ان کا جانشین وزیر اعظم بنے گا۔ عام انتخابات خود بخود شروع نہیں ہوں گے۔

ع س / ع ت (نيوز ايجنسياں)