1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ: انتخابات کے پانچ روز بعد بھی صورتحال مبہم

11 مئی 2010

برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات کے پانچ روز بعد بھی یہ فیصلہ نہیں ہو سکا ہے کہ کون سی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں گی اور ملک کا آئندہ وزیر اعظم کون ہو گا۔

https://p.dw.com/p/NLMn
تصویر: AP Graphics

گزشتہ جمعرات کو برطانیہ میں منعقدہ انتخابات میں قدامت پسند ٹوری پارٹی سب سے زیادہ نشستیں جیت گئی لیکن کامل اکثریت سے محروم رہی۔ لیبر پارٹی کو اپنی تاریخ کی بدترین شکست اٹھانا پڑی جبکہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو بھی کئی نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

لیبر پارٹی کے سربراہ کے عہدے سے گورڈن براؤن کی دستبرداری کے اعلان کے بعد لبرل ڈیموکریٹس پر کسی ایک حکومتی اتحاد کے حق میں جلد فیصلہ کرنے کے لئے دباؤ بڑھ گیا ہے۔ برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات کے پانچ روز بعد نِک کلیگ کی ’بادشاہ گر‘ پارٹی ایک جانب لیبر پارٹی کے ساتھ ممکنہ حکومتی اتحاد کے موضوع پر بات کر رہی ہے۔ دوسری جانب اُس نے کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت کی تشکیل کا امکان بھی بدستور کھلا رکھا ہوا ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کے چیئرمین ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ اُن کی جماعت نے ’اپنے مفادات کو پس پُشت رکھتے ہوئے‘ لبرل ڈیموکریٹس کو ایک ’بہت زیادہ قابلِ قبول‘ پیشکش کی ہے اور ’اب وقت آ گیا ہے کہ لبرل ڈیموکریٹس کوئی فیصلہ کریں‘۔ کیمرون کی ٹوری پارٹی کی جانب سے لبرل ڈیمو کریٹس کو نہ صرف وزارتوں بلکہ انتخابی نظام میں اصلاحات کے معاملے پر ریفرینڈم کے انعقاد کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔

Großbritannien Wahlen Reaktionen Gordon Brown Pressekonferenz Flash-Galerie
گورڈن براؤن ٹَین ڈاؤننگ سٹریٹ کے سامنے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: AP

حکومت سازی کی جانب ایک اہم پیشرفت پیر کے روز گورڈن براؤن کا یہ اہم اعلان تھا کہ وہ اِس سال ستمبر تک لیبر پارٹی کے چیئرمین کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ براؤن کو لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ حکومتی اتحاد میں ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اور اب یہ رکاوٹ دور ہو جانے کے بعد اِن دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اِس صورت میں براؤن عبوری عرصے کے لئے وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں۔

لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سائمن ہیوز نے اُمید ظاہر کی ہے کہ منگل یا بدھ کو حکومت سازی کے سلسلے میں کوئی اتفاقِ رائے سامنے آ جائے گا۔ خود نِک کلیگ نے کہا کہ وہ ’جلد از جلد کسی حل‘ پر پہنچنا چاہتے ہیں تاہم اُنہوں نے کسی خاص وقت کا ذکر نہیں کیا۔

Tony Blair und David Blunkett vor der Presse
سابق وزیر داخلہ ڈیوڈ بلنکیٹ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ہمراہتصویر: AP

لیبر پارٹی کے کئی رہنما اِن خبروں پر زیادہ بھی جوش کا اظہار نہیں کر رہے کہ لبرل ڈیموکریٹس کے ساتھ بات چیت کامیاب جا رہی ہے اور یُوں لیبر پارٹی کے حکومت میں شامل رہنے کا امکان باقی ہے۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لیبر اور لبرل ڈیموکریٹس مل کر بھی کامل اکثریت سے محروم ہیں اور اُنہیں حکومت بنانے کے لئے چھوٹی علاقائی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت پڑے گی۔ سابق وزیر داخلہ ڈیوڈ بلنکیٹ نے کہا کہ ’شکست خوردہ عناصر کا حکومتی اتحاد‘ لیبر پارٹی کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

لندن کے ٹوری پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر بورِس جانسن نے انتخابات کے بعد سے لے کر اب تک کی غیر واضح صورتحال کو ایک اسکینڈل قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا، اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ لبرل ڈیموکریٹس انتخابی نظام میں اصلاحات کے ذریعے چھوٹی جماعتوں کو آگے لانے کی جو کوششیں کر رہے ہیں، اُس کے کیسے مضحکہ خیز نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب یہ بھی طے نہیں ہو سکا ہے کہ لیبر پارٹی میں پارٹی قائد کے طور پر براؤن کی جگہ کون لے گا۔ نائب چیئر پرسن ہیریٹ ہیرمن نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ وہ اِس عہدے کی اُمیدوار نہیں ہیں۔ ایسے میں موجودہ وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بیڈ یا پھر وزیر تعلیم اَیڈ بالز کے نام لئے جا رہے ہیں تاہم اُنہوں نے ابھی اپنے بارے میں جاری قیاس آرائیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق