برطانیہ کو معافی مانگنی چاہیے، فلسطینی صدر
22 ستمبر 2016محمود عباس کے مطابق وہ لوگ جو دو ریاستی حل کے حامی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ایک کو نہیں بلکہ دونوں ریاستوں کو تسلیم کریں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ کو 1917ء کے بال فورڈ اعلامبے پر معافی مانگنی چاہیے، جو فلسطینی سر زمین پر ایک یہودی ریاست کی قیام کی توثیق کرتا ہے۔ ان کے مطابق 1917ء کے اس اعلامیے کی وجہ سے فلسطینی عوام کو بڑے مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے،’’ہم نے برطانیہ سے کہا ہے کہ اس بدنام زمانہ اعلامیے کو اگلے برس سو سال مکمل ہو رہے ہیں اور یہ موقع ہے اس سے سبق سیکھنے کا۔‘‘ ان کے بقول برطانیہ کو چاہیے کہ وہ اس کی تاریخی، قانونی، سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری قبول کرے اور فلسطینیوں سے ان پر ہونے والے ظلم اور نا انصافی کی معافی مانگے۔
عباس کے بقول اگلے برس فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو پچاس سال مکمل ہو جائیں گے اس وجہ سے اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ 2017ء کو اسرائیلی قبضے سے آزادی کا سال قرار دے۔ انہوں نے اس موقع پر عالمی برادری سے درخواست کی کہ وہ ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بڑھ چڑھ کر کوششیں کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن کے قیام کے لیے وہ کھلے دل کے ساتھ ہر طرح سے تیار ہیں لیکن کیا اسرائیلی رہنما بھی ایسا ہی چاہتے ہیں؟
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہودی بستیوں کی تعمیر کبھی بھی فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین وجہ تنازعہ نہیں تھی،’’ تنازعے کی بنیادی وجہ فلسطینیوں کی جانب سے یہودی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔‘‘ ان کے بقول مشرق وسطیٰ تنازعے کا بستیوں کی تعمیر سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہے۔ اس موقع پر انہوں نے حیفا، یافا اور تل ابیب سمیت تمام اسرائیلی شہروں کو حقیقی بستیاں قرار دیا اور کہا کہ یہ ان کے پیچھے بھی پڑے ہیں۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ اگر انہیں موقع دیا گیا تو وہ بخوشی رملہ میں فلسطینی پارلیمان سے خطاب کرنا چاہیں گے۔