برلن: سیاحوں کے ساتھ ساتھ جیب کتروں کی بھی پسندیدہ منزل
19 دسمبر 2016جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے وفاقی دارالحکومت میں اعلیٰ پولیس حکام کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے پیر انیس دسمبر کے روز اپنی رپورٹوں میں لکھا کہ آبادی کے لحاظ سے جرمن کے سب سے بڑے شہروں میں شمار ہونے والے وفاقی دارالحکومت میں جیب تراشی کا رجحان ڈرامائی حد تک زیادہ ہو چکا ہے۔
چور چوری کے بعد اپنی گاڑی میں سو گئے تھے، موقع واردات پر!
بھارتی چور سونے کی چین نگل گیا، برآمدگی کے لیے چالیس کیلے
پولیس کے مطابق یہ کام چند واقعات میں چھوٹے چھوٹے جرائم کے مرتکب مقامی مجرموں کے علاوہ زیادہ تر ان منظم جرائم پیشہ گروپوں کی طرف سے کیا جاتا ہے، جن کا تعلق اکثر واقعات میں جنوب مشرقی یورپی ملکوں سے آنے والے تارکین وطن سے ہوتا ہے۔
جیب تراشی قانونی طور پر چوری کے زمرے میں آتی ہے، جس کے بارے میں برلن کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس سال یکم جنوری سے اب تک اس شہر میں ایسے 50 ہزار کے قریب واقعات پیش آ چکے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو گی کیونکہ ایسا ہر وہ مقامی باشندہ یا سیاح جو جیب تراشوں کا نشانہ بنتا ہے، لازمی نہیں کہ وہ اس جرم کی پولیس کو رپورٹ بھی درج کرائے۔
پولیس کے مطابق جیب تراشی کے واقعات میں یہ ڈرامائی اضافہ اس لیے بھی پریشان کن ہے کہ یہ تعداد گزشتہ برس یعنی 2015 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے اور سال 2009 اور 2010 کے مقابلے میں تو اب ایسے جرائم کی شرح چار گنا ہو چکی ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق عام لوگوں یا سیاحوں کی جیبیں کاٹنے کے واقعات میں یہ اضافہ پولیس کی ان کوششوں کے باوجود دیکھنے میں آرہا ہے، جن کے تحت پرہجوم عوامی مقامات پر لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے یہ اعلانات بھی کیے جاتے ہیں کہ لوگ اپنی قیمتی اشیاء کی حفاظت کریں اور جیب کتروں سے بھی خاص طور پر ہوشیار رہیں۔
اس سلسلے میں برلن شہر کے ریلوے اسٹیشنوں، ہوائی اڈوں اور ان دنوں لوگوں سے بھری پڑی کرسمس مارکیٹوں تک میں بھی بار بار عوامی اعلانات کیے جاتے ہیں لیکن آخرکار ایسی جگہیں ہی وہ مقامات ثابت ہوتے ہیں، جہاں جیب کتروں کو اپنی انگلیوں کی صفائی دکھانے کا موقع قدرے آسانی سے مل جاتا ہے۔