برلن میں پاکستان ڈے
31 اکتوبر 2013پاکستانی تاجر علی اصغر کے بقول جب بھی پاکستان میں کوئی حملہ ہوتا ہے تو صورتحال اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ جرمن شہر ہیمبرگ سے تعلق رکھنے والے تاجر علی اصغر نے پاکستان ڈے کے موقع پر پاکستان میں قدم جمانے کی خواہش رکھنے والے جرمن صنعتی اداروں کو وہاں کی صورتحال کے بارے میں بتایا۔ علی اصغر شہباز شریف کے اس وفد میں شامل تھے، جس نے برلن میں ہونے والے پاکستان ڈے میں شرکت کی۔
جرمنی پاکستان کا چوتھا بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی تجارت کا حجم دو ارب یورو سالانہ کے برابر بنتا ہے۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے یقین دہانی کرائی کہ اگر سلامتی کے حالات بہتر ہو جائیں تو پاکستان میں جرمن سرمایہ کاروں کی بھیڑ لگ جائے گی۔ ان کے اس بیان پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور اقلیت میں موجود جرمن تاجروں نے بھی شہباز شریف کی تائید کی۔ الیکٹرانک مصنوعات بنانے والی جرمن کمپنی زیمینز کا شمار پاکستان میں سرگرم بڑے جرمن اداروں میں ہوتا ہے۔ وزیر اعلٰی پنجاب نے زیمینز کے عہدیداروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو گزشتہ برسوں کے دوران کاروباری فائدہ نہیں ہوا؟ تاہم ان افراد نے جواب میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ وزیر اعلٰی پنجاب نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردی پر قابو پانے کی کوششیں کر رہا ہے اور اس ناسور کو جلد ختم کر دیا جائے گا۔
اس اجتماع کے دوران پاکستانی وفد کی کوشش رہی کہ وہ درمیانے درجے کی جرمن کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کر سکے۔ اس دوران ہونے والی بات چیت میں شمسی توانائی، بائیو مصنوعات، ادویات اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے موضوعات پر زیادہ توجہ مرکوز رہی۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے ادارے کے سربراہ محمد عمر نے معیشت کے لچک دار ڈھانچے کی وکالت کی، جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سو فیصد منافع کی ضمانت دیتا ہے۔ محمد عمر نے کہا کہ پورے خطے میں ایسا صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔
اس موقع پر برلن یونیورسٹی کے پروفیسر ہیرمان کروئٹزمان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر کسی سرمایہ کار کو خوف نہ ہو تو پاکستان واقعی سرمایہ کاروں کے لیے ایک جنت ہے کیونکہ وہاں نہ تو ماحولیات کا خیال کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی وہاں نگرانی کا کوئی مؤثر نظام ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا کہ وہ پاکستانی حکومت کی جانب سے کی جانے والی اصلاحات کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے بقول اگر کچھ اصلاحات کو عوامی پذیرائی حاصل نہ بھی ہو، پھر بھی اسلام آباد حکومت کو یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔